Tuesday 19 February 2019

Punjabi 9 Solved Past Papers


According to the Paper Pattern of Lahore Board, Gujranwala Board, Sargodha Board, Faisalabad Board, Sahiwal Board, Multan Board, Bahawalpur Board, D.G. Khan Board, Rawalpindi Board, and Mirpur Azad Kashmir Board.

اب پچھلے پانچ سالہ پیپرز کے ذریعے نہم جماعت پنجابی کا امتحان تیار کرنا بہت آسان ہے۔
یہ پیپرز لاہور بورڈ، گوجرانوالہ بورڈ، سرگودھا بورڈ، فیصل آباد بورڈ، ساہیوال بورڈ، ملتان بورڈ، بہاولپور بورڈ، ڈی۔جی۔خان بورڈ، راولپنڈی بورڈ، اور میرپور آزاد کشمیر بورڈ کے امتحانی پیٹرن کے مطابق ہیں۔


Mathematics 9 (Science Group) Solved Past Papers


According to the Paper Pattern of Lahore Board, Gujranwala Board, Sargodha Board, Faisalabad Board, Sahiwal Board, Multan Board, Bahawalpur Board, D.G. Khan Board, Rawalpindi Board, and Mirpur Azad Kashmir Board.

اب پچھلے پانچ سالہ پیپرز کے ذریعے نہم جماعت ریاضی (سائنس گروپ) کا امتحان تیار کرنا بہت آسان ہے۔
یہ پیپرز لاہور بورڈ، گوجرانوالہ بورڈ، سرگودھا بورڈ، فیصل آباد بورڈ، ساہیوال بورڈ، ملتان بورڈ، بہاولپور بورڈ، ڈی۔جی۔خان بورڈ، راولپنڈی بورڈ، اور میرپور آزاد کشمیر بورڈ کے امتحانی پیٹرن کے مطابق ہیں۔


Saturday 16 February 2019

Date Sheet Lahore Board Matric Annual Examination 2019


کیا آپ میٹرک لاہور بورڈ 2019ء کے سالانہ امتحان کی ڈیٹ شیٹ تلاش کر رہے ہیں؟ پریشان ہونا چھوڑیے آپ بالکل صحیح جگہ آئے ہیں۔ نیچے میٹرک لاہور بورڈ 2019ء کے سالانہ امتحان کی ڈیٹ شیٹ دی گئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے اور آپ  ڈیٹ شیٹ کے نیچے دئیے گئے بٹن سے یہ ڈیٹ شیٹ  ڈاؤن لوڈ بھی کر سکتے ہیں:



اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ پاک میٹرک کے سالانہ امتحان میں شامل ہونے والے تمام طلباء کو کامیابی و کامرانی اور اچھے مارکس سے ہمکنار فرمائے۔ آمین ثم آمین

You can download this file by clicking the download button below:

https://drive.google.com/file/d/1wBqdLqZYOVxgro-VmfHvld2y0FRNufRN/preview


فزکس نہم حل شدہ پاسٹ پیپرز کیمسٹری نہم حل شدہ پاسٹ پیپرز بائیولوجی نہم حل شدہ پاسٹ پیپرز
ایجوکیشن نہم حل شدہ پاسٹ پیپرز ایلیمنٹس آف ہوم اکنامکس نہم حل شدہ پاسٹ پیپرز جنرل ریاضی نہم حل شدہ پاسٹ پیپرز

Friday 15 February 2019

Urdu 9 Solved Past Papers


According to the Paper Pattern of Lahore Board, Gujranwala Board, Sargodha Board, Faisalabad Board, Sahiwal Board, Multan Board, Bahawalpur Board, D.G. Khan Board, Rawalpindi Board, and Mirpur Azad Kashmir Board.

اب پچھلے پانچ سالہ پیپرز کے ذریعے نہم جماعت اردو کا امتحان تیار کرنا بہت آسان ہے۔
یہ پیپرز لاہور بورڈ، گوجرانوالہ بورڈ، سرگودھا بورڈ، فیصل آباد بورڈ، ساہیوال بورڈ، ملتان بورڈ، بہاولپور بورڈ، ڈی۔جی۔خان بورڈ، راولپنڈی بورڈ، اور میرپور آزاد کشمیر بورڈ کے امتحانی پیٹرن کے مطابق ہیں۔


Monday 11 February 2019

Pakistan Studies 9 Solved Past Papers


According to the Paper Pattern of Lahore Board, Gujranwala Board, Sargodha Board, Faisalabad Board, Sahiwal Board, Multan Board, Bahawalpur Board, D.G. Khan Board, Rawalpindi Board, and Mirpur Azad Kashmir Board.

اب پچھلے پانچ سالہ پیپرز کے ذریعے نہم جماعت مطالعہ پاکستان کا امتحان تیار کرنا بہت آسان ہے۔
یہ پیپرز لاہور بورڈ، گوجرانوالہ بورڈ، سرگودھا بورڈ، فیصل آباد بورڈ، ساہیوال بورڈ، ملتان بورڈ، بہاولپور بورڈ، ڈی۔جی۔خان بورڈ، راولپنڈی بورڈ، اور میرپور آزاد کشمیر بورڈ کے امتحانی پیٹرن کے مطابق ہیں۔


Islamiat Compulsory 9 Solved Past Papers


According to the Paper Pattern of Lahore Board, Gujranwala Board, Sargodha Board, Faisalabad Board, Sahiwal Board, Multan Board, Bahawalpur Board, D.G. Khan Board, Rawalpindi Board, and Mirpur Azad Kashmir Board.

اب پچھلے پانچ سالہ پیپرز کے ذریعے نہم جماعت اسلامیات لازمی کا امتحان تیار کرنا بہت آسان ہے۔
یہ پیپرز لاہور بورڈ، گوجرانوالہ بورڈ، سرگودھا بورڈ، فیصل آباد بورڈ، ساہیوال بورڈ، ملتان بورڈ، بہاولپور بورڈ، ڈی۔جی۔خان بورڈ، راولپنڈی بورڈ، اور میرپور آزاد کشمیر بورڈ کے امتحانی پیٹرن کے مطابق ہیں۔


Friday 8 February 2019

Elements of Home Economics 9 Past Papers Solved


According to the Paper Pattern of Lahore Board, Gujranwala Board, Sargodha Board, Faisalabad Board, Sahiwal Board, Multan Board, Bahawalpur Board, D.G. Khan Board, Rawalpindi Board, and Mirpur Azad Kashmir Board.

اب پچھلے پانچ سالہ پیپرز کے ذریعے نہم جماعت ایلیمنٹس آف ہوم اکنامکس کا امتحان تیار کرنا بہت آسان ہے۔
یہ پیپرز لاہور بورڈ، گوجرانوالہ بورڈ، سرگودھا بورڈ، فیصل آباد بورڈ، ساہیوال بورڈ، ملتان بورڈ، بہاولپور بورڈ، ڈی۔جی۔خان بورڈ، راولپنڈی بورڈ، اور میرپور آزاد کشمیر بورڈ کے امتحانی پیٹرن کے مطابق ہیں۔


Tuesday 5 February 2019

Education 9 Past Papers Solved (Urdu Medium)


According to the Paper Pattern of Lahore Board, Gujranwala Board, Sargodha Board, Faisalabad Board, Sahiwal Board, Multan Board, Bahawalpur Board, D.G. Khan Board, Rawalpindi Board, and Mirpur Azad Kashmir Board.

اب پچھلے پانچ سالہ پیپرز کے ذریعے نہم جماعت ایجوکیشن کا امتحان تیار کرنا بہت آسان ہے۔
یہ پیپرز لاہور بورڈ، گوجرانوالہ بورڈ، سرگودھا بورڈ، فیصل آباد بورڈ، ساہیوال بورڈ، ملتان بورڈ، بہاولپور بورڈ، ڈی۔جی۔خان بورڈ، راولپنڈی بورڈ، اور میرپور آزاد کشمیر بورڈ کے امتحانی پیٹرن کے مطابق ہیں۔


Civics 9 Past Papers Solved (Urdu Medium)


According to the Paper Pattern of Lahore Board, Gujranwala Board, Sargodha Board, Faisalabad Board, Sahiwal Board, Multan Board, Bahawalpur Board, D.G. Khan Board, Rawalpindi Board, and Mirpur Azad Kashmir Board.

اب پچھلے پانچ سالہ پیپرز کے ذریعے نہم جماعت سوکس کا امتحان تیار کرنا بہت آسان ہے۔
یہ پیپرز لاہور بورڈ، گوجرانوالہ بورڈ، سرگودھا بورڈ، فیصل آباد بورڈ، ساہیوال بورڈ، ملتان بورڈ، بہاولپور بورڈ، ڈی۔جی۔خان بورڈ، راولپنڈی بورڈ، اور میرپور آزاد کشمیر بورڈ کے امتحانی پیٹرن کے مطابق ہیں۔


Saturday 2 February 2019

آپ بھی تخلیق کار بن سکتے ہیں۔۔۔۔۔

کیا آپ نامور ادیب بننا چاہتے ہیں؟ ایک معروف موسیقار یا ہدایت کار؟ بہت بڑے شاعر یا موجد۔۔۔۔۔؟ آپ میں سے بیشتر کا جواب "ہاں" میں ہو گا مگر اس کے ساتھ ہی بہت سے افراد مایوسی سے یہ کہہ اٹھیں گے کہ یہ میرے بس کی بات کہاں۔۔۔۔۔؟ قدرت نے ہر شخص کو تخلیقی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں۔ آپ کا کام انہیں اجاگر کرنا اور کام میں لانا ہے۔ تخلیقی صلاحیت سے مراد ہے کہ ایسی صلاحیت جو آپ سے ایک نیا اور اچھوتا کام کرالے اور اس اندازمیں اس سے پہلے وہ کام کسی نے نہ کیا ہو۔۔۔۔۔عموماً تخلیقی صلاحیت کو پیدائشی صلاحیت کہا جاتا ہے لیکن یہ بات درست نہیں۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق انسان کسی بھی ہنر یا کام کی طرف متوجہ رہے تو اس میں جدت اور تخلیقات پیدا کر سکتا ہے۔ نظامِ قدرت کا مربوط اور جامع نظام انسان کو غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ فطرت انسان کی رہنمائی کرتی ہے۔ آج سائنس کے جدید دور تک موجد کے ذہنوں میں اُبھرنے والے خیالات کسی نہ کسی فطری واقعہ کے سبب رونما ہوئے۔ دنیا میں واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن ان واقعات سے کوئی نئی چیز دریافت کرنے والا تخلیق کار بن جاتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ نئے خیالات کی نشوونما کے عمل میں درج ذیل چند مراحل سے گزرنا ضروری ہے:

معاملہ کا جائزہ بصیرت سے لیجیے:

فرض کریں کہ آپ کے سامنے ایک مسئلہ ہے جسے آپ حل کرنا چاہتے ہیں یا آپ کوکوئی کام کرنا ہے۔ مثلاً گھر کو ازسرِنو آراستہ کرنا ہے یا آپ کو کسی نئی نوکری کی تلاش ہے، یا آپ کمپنی سے جو فالتو سامان نکلتا ہے آپ اسے کوئی نئی شکل دے کر مزید منافع کمانے کے لیے سوچ رہے ہیں۔۔۔۔۔ یہ ساری مثالیں دراصل بصیرت کی ہیں۔ یعنی موقع کی پہچان کی۔ ابتداء یہیں سے ہوتی ہے۔

خیالات کی عملی تشکیل کے لیے:

اب آپ اپنی نگاہ میں آنے والے آئیڈیاز کو ٹھوس شکل میں لانے کے لیے طریقے سوچتے ہیں۔ اسے کس طرح بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔؟ اس سلسلے میں یوں کریں کہ زیادہ سے زیادہ مواد اس موضوع پر جمع کریں۔ معلومات حاصل کریں۔ اس کے لیے کتابیں پڑھیں۔ دوسروں سے اس پر بحث کریں۔ سوالات کریں اور نوٹس لیں۔ اپنے ذہن کو کھلا رکھیں۔ مشہور آرٹسٹ پکاسو نے ایک بار کہا تھا کہ آرٹسٹ ہر وقت اپنے ذہن کو جذباتی سطح پر کسی بھی چیز سے تاثر حاصل کرنے لیے کھلا رکھتا ہے۔ چاہے یہ تاثر آسمان سے وارد ہو، کسی پتے سے ملے، کسی کی شکل دیکھ کر پیدا ہو یا مکڑی کا جالا اس کا باعث بنے۔ دراصل یہ خیالات ایک اسپرنگ بورڈ کی مانند ہوتے ہیں جس پر ہم اپنی قوتِ متخیلہ کو لمبے غوطے کے لیے چھلانگ کا کام لے سکتے ہیں۔

غوروفکر:

خیالات کو بسا اوقات کافی عرصے تک پرورش گاہ میں ڈالے رکھنا پڑتا ہے، جیسے مرغی اپنے انڈوں کو سیتی ہے۔ یہاں آپ کو اپنے لاشعور کو موقع دینا ہوتا ہے کہ وہاں کوئی اطلاع سامنے آئے۔ اس کے لیے سوجائیں، گھومیں پھریں، اس بات کو ذہن میں ہی چھوڑ دیں، کسی اور کام پر لگ جائیں اور شعور کو اس پر غور کرنے کا موقع فراہم کریں۔ ہو سکتا ہے، اس میں کافی عرصہ لگ جائے، لگ جانے دیں۔ تفکر کے اس وقت کو بے کار نہ سمجھیں۔ ایک وقت آپ پر نیا در ضرور کھلے گا۔

اپنے ذہن کو انکشافات کے لیے تیار رکھیے:

تخلیقی پروسیس کا یہ مرحلہ ایک معنوں میں آئیڈیے کا "کلائمیکس" کہلاتا ہے۔ پہلے پہلے اچانک ایک آئیڈیا ذہن میں ابھرتا ہے اور پھر ہر کڑی اپنی جگہ بیٹھی محسوس ہوتی ہے۔


تجزیہ کیجیے:

بے شک حل کا انکشاف ایک حیرت انگیز اور دل خوش کن تجربہ ہے لیکن اکثر اوقات یہ ایک دھوکا بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی خوبصورتی ہمیں بہکا سکتی ہے۔ ضرورت ہوتی ہے کہ اس موقع پر احتیاط برتی جائے اور ذہانت اور قوتِ متخیلہ کو بروئے کار لایا جائے۔ بھر جو کچھ ذہن میں وارد ہوا ہو اسے منطقی پیمانوں پر پرکھا جائے۔ اس موقع پر آپ کو صحیح و غلط کا امتیاز کرنا ہوگا۔ اسے دوسروں کے سامنے رکھیں ان کی آراء معلوم کریں۔ ضرورت پڑے تو اسے تبدیل کریں۔ ہو سکتا ہے کہ اس صورت میں اس کی کوئی بالکل نئی شکل برآمد ہو۔

مختصراً یہ کہ تخلیقی خیالات کو اس وقت ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب آپ یہ جان لیں کہ ہر تخلیقی عمل میں کئی مراحل درپیش ہوتے ہیں۔ پہلے ذہن میں ایک نیا آئیڈیا آتا ہے۔ پھر آپ اسے بروئے کار لانے کے طریقے سوچتے ہیں۔ معلومات وغیرہ جمع کرتے ہیں۔ پھر ایک وقفہ آتا ہے جس میں لاشعور اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ پھر انکشافی مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اس میں لاشعوری کردار سطح پر ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اس کی تحقیق ضروری ہوتی ہے یعنی یہ کس حد تک درست ہے یا غلط۔

کچھ شرائط ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی تخلیقی صلاحیتیں واقعی کام کر سکتی ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد ایک اور بات ضروری ہوتی ہے۔ آپ کو اپنے سامنے مقصد بھی رکھنا ہوتا ہے۔ یعنی اس سے آپ کو کیا ملے گا۔۔۔۔۔؟ کیا اس کے ذریعے آپ کو بہتر پوزیشن مل سکتی ہے، کیا اس سے کوئی بڑا مالی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟ کیا اس سے آپ کو شہرت مل سکتی ہے؟ یا اس کے ذریعے آپ کو کوئی روحانی سکون یا اطمینانِ قلب ملنے کا امکان ہے۔۔۔۔۔؟ وٖغیرہ۔ اچھا آئیڈیا وہیں جنم لیتا ہے جہاں دماغ میں مقصد حاصل کرنے کا جنون ہو۔

جس طرح کسی "مقصد" کا وجود ضروری ہے۔ اسی طرح ہمیں اپنے آئیڈیے کے فروغ کے لیے بھی یہ سوچنا ہو گا کہ اسے بلا تاخیر کریں۔ آدمی کے اندر کام کو التواء میں ڈالنے کی ایک فطری عادت ہوتی ہے۔ نئے خیالات کے ساتھ عمل میں یہ ضروری ہے کہ آپ اس فطری عادت کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں۔ ایک ڈیڈ لائن طے کرلیں۔ پھر اسی شیڈول پر دلجمعی اور استقلال سے عمل شروع کر دیں۔ اس طرح تاخیر و التواء کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

تخلیقی مزاج کے اشخاص کے ہاں ذہانت بھرا کھلنڈرا پن بھی ہوتا ہے۔ ہم سب لوگ بھی اسی طرح کا رویہ اپنا کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دے سکتے ہیں۔ یعنی تھوڑی سی لاپرواہی، تھوڑی سی بے احتیاطی وغیرہ کا رویہ۔ اپنی تخلیقی قوتوں کو زیادہ سنجیدگی سے نہ اپنائیں، چاہے ان کے نتائج خاصے سنجیدہ ہی کیوں نہ ہوں۔

یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ کس طرح، کیا آپ کے لیے کارآمد ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی بھی چیز ہو سکتی ہے۔ ٹہلنے کا عمل، چائے پینے کا عمل یا کچھ بھی۔ نکتہ یہ ہے کہ جو بات آپ کو سازگار محسوس ہو اسے اپنائیں۔ تخلیقی لوگ بے شمار عملی ترکیبوں کو کام میں لاتے رہتے ہیں۔ جن کے ذریعے ان کے اندر نئے خیالات اُبھرتے ہیں۔

تبدیلی کہاں ضروری ہے۔۔۔۔۔؟:

بڑھانا۔ گھٹانا۔ بڑا کرنا۔ چھوٹا کرنا۔ اُلٹا کرنا۔ یکجا کرنا۔ یہ کچھ کام ہیں۔ اپنے مسئلے پر انہیں منطبق کر کے دیکھیں۔ مثلاً ایک اسکریو ڈرائیور لیں۔ یہ گول ہے، اس کا ہینڈل لوہے کا ہے، لکڑی کا ہے، اس کی شکل چوکور ہے۔ اس کی ٹپ مڑی ہوئی ہے۔ فرض کریں، آپ اس سکریو ڈرائیور کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ اس کی تمام صورتوں پر توجہ دیں۔ ایک ایک پہلو کو دیکھیں۔ کیا اس کی شکل بدلنے سے کام چلے گا۔ کیا اس کا ہینڈل بدلنا چاہیے۔ کیا اسے الیکٹرک ڈرل بنایا جائے۔ خود سے پوچھیے۔ آپ کیا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔؟ اور کون سی صورت اسے دی جائے کہ آپ کا مسئلہ حل ہو جائے۔

اپنے خیالات کو لکھ لیں:

نہ جانے کس وقت ذہن میں کیا بات آ جائے۔ تیار رہیں اور اسے لکھ لیں۔

آئیڈیا بنک:

کسی خاص موضوع سے متعلق جو خیالات بھی وقتاً فوقتاً ذہن میں آئیں انہیں کہیں محفوظ کریں۔ فائل بنائیں۔ یہ کسی بھی وقت کام آ سکتے ہیں۔

وقت کو استعمال کریں:

نہ جانے کس وقت کون سا حل ذہن پر منکشف ہو۔ یہ آدھی رات کو بھی ذہن میں آ سکتا ہے۔ کسی نئے خیال پر کام کرتے وقت جو جو رکاوٹیں راہ میں ملیں، انہیں بھی ریکارڈ پر لائیں، پھر سونے کے لیے لیٹ جائیں۔ اپنے لا شعورکو کام کرنے کا موقع دیں۔ ممکن ہے بیداری پر آپ کو کوئی معقول حل مل جائے۔ نیند نہ آنے کا مرض، اسے بھی کام میں لایا جا سکتا ہے۔ بجائے اس کے کہ آپ سوچ سوچ کر دل جلائیں کہ نیند کیوں نہیں آتی۔۔۔۔۔! ذہن میں نئی باتیں اور نئے آئیڈیاز اٗبھارنے کی سعی کریں۔ ان کے ذریعے اپنے مقاصد تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ ہو سکتا ہے، ذہن میں کوئی بہت ہی مفید خیال آ جائے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ان کے بارے میں سوچنے سے آپ کو نیند بھی آ سکتی ہے۔

زندگی میں روزمرہ کے زیادہ تر کام ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر دماغی محنت کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی۔ جو وقت مل جاتا ہے اسے آپ تخلیقی کاموں کے لیے استعمال کیوں نہیں کرتے۔۔۔۔۔؟ ہر بے کار لمحہ کسی کارآمد کام میں استعمال ہو سکتا ہے۔

خاص خیال رکھیں کہ جب بھی کوئی نیا آئیڈیا ذہن میں آئے تو پھر فوری طور پر کوئی فیصلہ نہ کریں۔ ورنہ وہی بات ہو سکتی ہے جیسے کوئی بیک وقت ایکسلریٹر بھی دبائے اور بریک بھی۔ ذہن میں نئے خیالات اُبھرنے دیں پھر ان پر یکے بعد دیگرے غور کرکے فیصلہ کریں۔ خیالات کو اس وقت تک ترک نہ کریں جب تک وہ بے معنی ثابت نہ ہو جائیں۔ جب تک آپ اپنی قوتِ متخیلہ کو خود تسلیم نہیں کریں گے وہ کام نہیں کر سکے گی۔ اپنے اوپر اعتماد کریں۔

خاموشی سوال کا جواب اسپیشل بچے
خاموشی سوال کا جواب اسپیشل بچے

Thursday 31 January 2019

خاموشی


اگر مومن کوئی بات کرے تو اس کو چاہیے کہ تھوڑی کہے اور جو بیان کرے برہان قاطع سے بیان کرے۔

حضرت امیر المومنین ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے منہ میں پتھر کا ٹکڑا رکھتے تھے۔ اس واسطے کہ جھوٹی بات منہ سے نہ نکل جائے۔ جب نماز پڑھتے تھے اس وقت پتھر کو منہ سے نکال لیتے تھے اور جب نماز سے فارغ ہوتے پھرمنہ میں رکھ لیتے۔ اور فرماتے کہ مبادا میری زبان سے کوئی لغو نہ نکل جائے اور مجھ کو قیامت کے دن اس کا جواب دینا پڑے۔ اور جو کوئی بہت باتیں کرتا ہے اکثر لغو اور غلط کلام اس کے منہ سے نکلتا ہے وہ بے شرم ہو جاتا ہے اور اس کا دل مر جاتا ہے۔

کہا گیا ہے کہ خاموشی میں تین ہزار سات نیکیاں ہیں۔ اور وہ سات باتوں پر منحصر ہیں۔ اور ان سات باتوں میں سات ہزار نیکیاں ہیں۔ اول خاموشی ایسی عبادت ہے کہ بغیر محنت کے ہو جاتی ہے۔ دوسرا خاموشی بغیر آرائش کے زینت ہے۔ تیسرا خاموشی بغیر بادشاہی کے ہیبت ہے۔ چوتھا خاموشی بغیر نگاہ باتوں سے قلعہ ہے۔ پانچواں خاموشی بغیر کسی احسان کے دولت مندی ہے۔ چھٹا خاموشی کراماً کاتبین کے لیے خوشی ہے۔ ساتواں خاموشی عیبوں کا پردہ ہے۔ تین عادتیں مومنین کی علامت ہیں۔ اول دل کو معرفت الہٰی کے ساتھ آراستہ رکھنا۔ دوم دل کو تکبر اور حسد اور خیانت سے دور رکھنا۔ سوم نفس کو گناہ سے بچانا اور کسی مسلمان کو نہ ستانا۔ جو وعدہ کرے، اس کا ایفا کرنا۔ جو کوئی زبان کا وعدہ وفا نہ کرے کاذب شمار ہوتا ہے اور جھوٹا آدمی خدا کا دشمن ہو جاتا ہے۔ (معاذ اللہ)


سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص نے بلبل کو پکڑ کر پنجرہ میں رکھا ہوا تھا۔ وہ بلبل خوش آوازی سے بولا کرتی تھی۔ اتفاقاً اس بلبل کے پاس ایک اور بلبل آئی اور کہا کہ اے میری ہمشیرہ! میں یہ ملک چھوڑ کر دوسرے ملک کو جاتی ہوں۔ تُو بھی میرے ساتھ چل۔ تاکہ ہم دونوں وہاں کی زیارات کو چلیں اور وہاں کی سیر کریں۔ اس بلبل نے کہا کہ میں کس طرح چلوں! کیونکہ میں قید خانہ میں ہوں۔ دوسرے بلبل نے کہا کہ تُو قید میں اپنے بولنے کے سبب سے ہے اگر تُو چاہتی ہے کہ اس قید سے رہائی پائے تو چند روز اپنی زبان روک لے اور آواز مت نکال اور خاموشی اختیار کر کہ اس طرح تُو خلاصی پائے گی۔

القصہ اس بلبل نے مدت تک آواز نہ نکالی۔ اس کا مالک حضرت سلیمان علیہ السلام کے حضور پیش ہوا اورعرض کی کہ اے پیغمبر خدا! بہت مدت سے یہ بلبل بولتی نہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے گوشہ میں جا کر بلبل سے دریافت کیا کہ تُو کیوں نہیں بولتی! کہ تیری آواز انسانوں کے دل کی راحت ہے۔ بلبل نے کہا اے خدا کے رسول! ایک دوست نے مجھے وصیت کی ہے کہ اگر تُو چاہتی ہے کہ اس قید سے خلاصی مل جائے تو چپ رہو اور آواز مت نکالو۔

سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ اے مردِ خدا! اس کو چھوڑ دے اگر ہزار سال تک اس کو پنجرہ میں رکھے گا تو بھی یہ آواز نہیں نکالے گی۔ آخر اس مرد نے بلبل کو چھوڑ دیا اور وہ بلبل خلاصی پا کر اڑ گئی۔

روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھ کو کوئی نصیحت فرمائیے۔

جنابِ رسول ﷺ نے ان کی زبان کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا "زبان کو نگاہ رکھ"۔

پھر معاذ رضی اللہ تعالیٰ نے عرض کیا کہ مجھ کو نصیحت فرمائیے۔

رسول ﷺ نے فرمایا: "معاذ! کوئی شخص دوزخ میں نہ جائے گا مگر زبان کے سبب سے، کیونکہ جھوٹ بولنا اور گِلہ کرنا اور سخن چینی اور بہتان لگانا سب زبان سے متعلق ہے"۔

جو کوئی زبان کو نگاہ میں رکھے دوزخ سے نجات پائے گا اور قیامت کو دنیا میں تمام عبادتوں سے بڑھ کر زبان کا روکنا ہے۔



سوال کا جواب اسپیشل بچے ڈوری سے بندھا شاہین
سوال کا جواب اسپیشل بچے ڈوری سے بندھا شاہین

Monday 28 January 2019

سوال کا جواب


ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا، اے اللہ! تو انسانوں کو پیدا کرتا ہے اور پھر مار دیتا ہے اس میں کیا حکمت ہے؟ بارگاہِ خداوندی سے جواب آیا اے موسیٰ! چونکہ میں جانتا ہوں کہ تیرا یہ سوال انکار اور غفلت کی وجہ سے نہیں ہے اس لیے میں درگزر کرتا ہوں ورنہ تجھے سزا دیتا اور غصہ کرتا۔ تو اس لیے معلوم کرنا چاہتا ہے تاکہ عوام کو ہماری حکمتوں سے آگاہ کر دے ورنہ تجھے مخلوق کے پیدا کرنے میں ہماری حکمتیں معلوم ہیں۔ اے موسی! میں جانتا ہوں کہ تو ناواقفوں کو حکمتوں سے واقف کرنا چاہتا ہے۔


اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا، اے موسیٰ! تم کھیتی بو دو۔ چناچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے زمین میں بیج بو دیا اور پھر جب کھیتی تیار ہو گئی تو انہوں نے درانتی کے ساتھ کھیتی کو کاٹ ڈالا۔ غیب سے ارشادِ خداوندی ہوا، اے موسیٰ! تم نے خود کھیتی بوئی اور پھر اب اس کو کیوں کاٹ دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا، اے اللہ! کھیتی کے پکنے پر اس میں دانہ اور بھوسہ تھا اور دونوں کو ملا جلا دینا مناسب نہیں تھا۔ حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ دونوں کو الگ الگ کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ یہ عقل تم نے کہاں سے حاصل کی؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ یہ عقل و دانش آپ کی عطا کردہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارے سوال کا جواب یہ ہے کہ انسانوں کی روحیں دو قسم کی ہیں ایک پاک اور ایک ناپاک۔ سب انسانی جسم ایک رتبہ کے نہیں ہیں کسی جسم میں موتی جیسی روح ہے اور کسی جسم میں کنج کے پوتھ کی طرح ہے۔ چناچہ ان روحوں کو بھی اسی طرح ایک دوسرے سے علیحدہ کر دینا مناسب ہے جس طرح گندم کو بھوسے سے تاکہ نیک روحیں جنت میں چلی جائیں اور بری روحیں جہنم میں ۔ پہلی حکمت تو مارنے کی تھی پیدا کرنے کی حکمت یہ ہے کہ ہماری صفات کا اظہار ہو جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں پوشیدہ خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں لہٰذا میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔ اس واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں مومن کی بھلائی مضمر ہوتی ہے۔ مومن کی موت بھی مومن کے لیے راحت و مسرت کا پیغام ہوتی ہے اور اس کی دنیا میں آمد بھی خوشی و مسرت کا باعث بنتی ہے۔

(حکایاتِ رومی سے ماخذ)


اسپیشل بچے ڈوری سے بندھا شاہین حکمت
اسپیشل بچے ڈوری سے بندھا شاہین حکمت

Tuesday 22 January 2019

اسپیشل بچے


وہ بچے جو خصوصی توجہ کے طالب ہوتے ہیں اسپیشل کہلاتے ہیں۔ ان بچوں کو ہر لحاظ سے خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی حسیات عام بچوں کے مقابلے میں قدرے تیز ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ عام بچوں کے مقابلے میں حساس ہوتے ہیں۔ ایسے والدین کے لیے وہ لمحہ بڑا کرب انگیز ہوتا ہے جب ان کے علم میں یہ بات آتی ہے کہ ان کا بچہ اسپیشل ہے۔ اسی لمحے ان والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ سورج ڈوب کر دوبارہ ابھرے اور یہ اس لمحے کا حصہ بن جائیں لکین حقیقت بہرحال وجود رکھتی ہے۔

جسمِ انسانی کا تمام تر انحصار اس کے دماغ پر ہوتا ہے۔ خون کی رگوں کے ساتھ ساتھ اعصاب جسم میں احکامات لے کر آتے ہیں اور جسمانی اعضاء ان احکامات کی تعمیل کرتے ہیں۔ کسی گرم چیز کو چھوتے ہی آپ اپنا ہاتھ فوری طور پر واپس کھینچ لیتے ہیں، ہاتھ کھینچنے کا یہ حکم دماغ جاری کرتا ہے جو اعصابی جال کے ذریعے لمحے کے ہزارویں حصے میں آپ کے ہاتھ تک جا پہنچتا ہے اور آپ اس حکم کی بجا آوری کرتے ہیں۔ بعض حالات میں بچے کا ذہن مکمل طور پر نشوونما نہیں پاتا اور پسماندہ رہ جاتا ہے، ایسے بچے اسپیشل یا ذہنی معذور کہلاتے ہیں۔

اسپیشل بچوں کی پیدائش کی وجہ:

اسپیشل بچے کیوں پیدا ہوتے ہیں۔۔۔۔۔؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ اچھے خاصے تندرست ماں باپ کے ہاں نارمل بچوں کے ساتھ ساتھ اسپیشل بچے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ ماہرین بھی حتمی طور پر اس کی وجہ بتانے سے قاصر ہیں۔ میڈیکل سائنس اس کی بہت ساری وجوہات بیان کرتی ہے لیکن کوئی حتمی اور یقینی وجہ سامنے نہیں آئی۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ کثرتِ اولاد اس کی وجہ ہوسکتی ہے۔ ایسی مائیں چونکہ خود صحت کے لحاظ سے بے حد کمزور ہو جاتی ہیں لہٰذا پیدا ہونے والا بچہ بھی بہت سی مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ ماں سے مکمل توانائی اور صحت حاصل نہ کر سکنے کے باعث یہ بچے ذہنی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دورانِ حمل خواتین کو عام دنوں سے کہیں زیادہ احتیاط اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے، کسی بھی قسم کا نفسیاتی دباؤ یا پریشانی بچے کی حالت کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے حاملہ خواتین کو ذہنی اور جسمانی طور پر مکمل سکون اور اطمینان فراہم کرنا اس کے شوہر اور اہلِ خانہ کی ذمہ داری ہے۔ دورانِِ حمل ماں کو لگنے والے حفاظتی ٹیکے بھی بچے کو معذوری سے محفوظ رکھتے ہیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ خاندان میں رشتہ کرنے کی وجہ سے بھی ذہنی معذور بچے پیدا ہو سکتے ہیں۔ ماں باپ کے خون کا غلط ملاپ بھی بچوں میں معذوری کا باعث بنتا ہے۔

والدین کا رویہ:

یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ ایسے بچوں کے ماں باپ ذہنی اذیت اور سخت پریشانی کا شکار رہتے ہیں اور اپنی اولاد کو ایسی معذوری اور مجبوری کی حالت میں دیکھ کر ان کا دل خون کا آنسو روتا ہے۔

اگر خدانخواستہ کسی کے بچے کا شمار بھی اسپیشل بچوں میں کیا جانے لگا ہے تو اس وقت اس کو سنبھلنے کی ضرورت ہے، خود کو اس حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرے، اس وقت وہ جتنی جلد خود کو سنبھال لے، اتنا ہی بہتر ہے۔

اسپیشل بچوں کے والدین اپنے اندر حوصلہ پیدا کریں:

زندگی ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی، اگر والدین اپنے مسائل کا جائزہ لیں اور اس کے مطابق اپنے اعصاب کو بھی مضبوط کر لیں تو اسپیشل بچے کے والدین کی حیثیت سے اس بچے کی پرورش کی مشکلات کا مقابلہ نسبتاً آسانی سے ہو سکے گا۔ گھر کی جانب سے ہمت افزائی سے آپ اس چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اسپیشل بچوں کے والدین کو چاہیے کہ وقتاً فوقتاً اسپیشل بچوں کے ماہر اساتذہ اور والدین سے ملاقات کرتے رہیں، اس سے نہ صرف یہ کہ ان کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہو سکے گا بلکہ ان سے مفید و کارآمد مشورے بھی مل جائیں گے جو روزمرہ مشکلات کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک دشوار گزار راستہ ہے لہٰذا اس راستے پر چلنے کی مشکلات سے آگاہ رہنا چاہیے اور کسی بھی مرحلے پر گھبرانے کی ضرورت نہیں، اپنے مقصد پر نگاہ رکھیں، لوگوں سے مشورے لیں، اس طرح اپنی زندگی میں درپیش چیلنج کا سامنا کرنے اور مقابلہ کرنے کی ہمت خود میں پیدا کر لیں گے۔

اسپیشل بچوں کے مسائل اور والدین کا کردار:

والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ذہنی نشوونما الگ بات ہے اور جسمانی نشوونما الگ، اس لیے محض جسمانی نشوونما دیکھ کر یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ بچہ ذہنی طور پر بھی  نمو پا رہا ہے۔ ذہنی طور پر پس ماندہ بچوں سے مراد وہ لڑکے اور لڑکیاں ہیں جو پس ماندہ ذہن لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی یہ ذہنی پس ماندگی مستقل ہوتی ہے۔ ان کی دماغی صلاحیت محدود ہوتی ہے، لیکن شکل سے وہ صحت مند دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا مکمل علاج نہیں ہو سکتا، مگر تربیت اور تعلیم سے ان کی حالت کو قدرے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ذہنی طور پر معذور بچوں کے والدین کو اکثر ان کے مسائل اور احساسات و جذبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذہنی پسماندہ لڑکی کا اصل مسئلہ پہلی بار اس وقت سامنے آتا ہے جب وہ بالغ ہو جاتی ہے۔ اسے گھر میں اور دوسرے لوگوں کے سامنے شرم و حیا کے سماجی آداب سکھانا بڑا مشکل کام ہے۔ اسے صحت و صفائی اور اس سلسلے میں دوسرے اقدامات کا شعور سکھانا کوئی آسان بات نہیں۔ ایسی بچیاں مخصوص دنوں میں اکثر بہت پریشان رہتی ہیں۔ اس عمر میں جو طبعی تبدیلیاں ہوتی ہیں ان سے ان میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔

جن بچیوں کی ذہنی پس ماندگی معمولی درجے کی ہوتی ہے، یہ عام طور پر نارمل دکھائی دیتی ہیں۔ وہ شادی کر کے نارمل زندگی بھی گزار سکتی ہیں۔

پس ماندہ لڑکوں کے مسائل مختلف ہیں۔ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لڑکے جسمانی طور پر طاقتور جسم کے مالک ہوتے ہیں، لیکن ذہنی طور پر بہت پسماندہ ہوتے ہیں۔ معمولی ذہنی معذوری رکھنے والے زیادہ ترلڑکے نارمل ہی دکھائی دیتے ہیں اور وہ شادی بھی کر سکتے ہیں۔ تاہم ان میں اکثر اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ اکثر سمجھ دار والدین اور خاندان کے افراد ایسے مسائل سے پہلے سے آگاہ ہوتے ہیں اور خاندانی معالج سے مشورہ کرتے رہتے ہیں۔

خصوصی تعلیم:

خصوصی تعلیم سے مراد تعلیم دینے کا ایسا طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ذہنی پسماندہ، نابینا، سماعت سے محروم اور جسمانی طور پر معذور بچوں کو خاص قسم سے ٹیچنگ تکنیک، خصوصی اور جدید نصاب کے ذریعے ان بچوں کی تعلیمی، سماجی اور جذباتی نشوونما ہو سکے۔ تاکہ ایسے بچے بھی اپنے اندر اعتماد پیدا کر سکیں۔ اور معاشرے کے فعال رکن بن کر اپنی زندگی گزاریں نہ کہ دوسرے پر بوجھ بنیں۔

خصوصی تعلیم میں کچھ خاص طریقۂ کار استعمال کیے جاتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی جس چیز کی سب سے زیادہ اہمیت ہے وہ ہے والدین کا مناسب رویہ اور بچے کے بارے میں ان کا اندازِ فکر۔۔۔۔۔ ہمارے معاشرے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پہلے والدین کو اس بات کی تعلیم دی جائے کہ یہ بچہ ان کے لیے بوجھ نہیں۔ بس اسے صرف تھوڑی سی زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اورجو والدین تھوڑی سے زیادہ کوشش کر لیتے ہیں ان کا بچہ خصوصی تعلیم سے بھرپور فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ جس سے ذہنی معذوری کی وقوفی نشوونما بہتر طرز پر اور جلد ہوتی ہے۔ اس بات سے ظاہر ہوا کہ خصوصی تعلیم کی ایک اہم ضرورت والدین کی معاونت ہے۔ کچھ ماہرین نفسیات کے مطابق والدین اور ماہرین کے درمیان ایک تعلیمی رابطہ قائم ہونا چاہیے۔ جس کو وہ Partnership with Parents کا نام دیتے ہیں۔ اس پارٹنرشپ میں والدین اور ماہرین اپنے علم اپنی مہارتوں اور تجربوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ تاکہ خصوصی بچے کی شخصیت کی نشوونما میں مددگار ثابت ہو۔

ماہرین نفسیات کے نزدیک ذہنی پس ماندگی کے لیے ہمارے معاشرے میں کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے اور ان ماہرین نفسیات کے مطابق ذہنی پسماندگی تین زمروں میں آتی ہے۔ اول وہ لوگ جن کی اگر مناسب مدد کی جائے تو تھوڑا بہت پڑھ کر ہنر مند بن سکتے ہیں۔ دوئم وہ جو تعلیم توحاصل نہیں کر سکتے مگر زیرنگرانی کام سیکھ اور کر سکتے ہیں۔ سوئم وہ جو اس قدر پس ماندہ ہوتے ہیں کہ ان کی دیکھ بھال کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ بعض ممالک میں جہاں ملکی اور معاشی حالات اجازت دیتے ہیں ایسے مریضوں کے لیے علیحدہ بندوبست ہے۔ کیونکہ انہیں تھیک کرنے کے لیے کوئی دوا ایجاد نہیں ہوتی۔ اسی لیے ان کی دیکھ بھال محکمۂ تعلیم اور سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے جو حسبِ ضرورت محکمہ صحت سے رابطہ رکھتے ہیں۔ اگر کسی کو مسلسل یہ احساس دلایا جائے کہ وہ پاگل ہے تو اس پر نفسیاتی دباؤ بھی بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا ہماری اور تمام معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے  کہ ایسے بچوں کا خیال رکھیں اور ان میں یہ خیال پروان چڑھائیں کہ وہ بھی ملک کے فعال اور مفید شہری ہیں۔