Friday 14 December 2018

امانت داری اور وفاداری



حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ اس نے بنی اسرائیل کے کسی آدمی سے کہا کہ اس کو ایک ہزار دینار ادھار کے طور پر دیئے جائیں (بنی اسرائیل کے) اس آدمی نے کہا کہ کوئی گواہ لے آؤ تاکہ میں ان کو اس معاملہ پر گواہ بنا لوں۔ اس نے کہا کہ میرے لیے اللہ تعالیٰ گواہ کے طور پر کافی ہے، اس نے کہا کہ اچھا پھر کوئی کفیل لے آؤ، اس نے کہا کہ میرے لیے اللہ تعالیٰ ہی کفیل کافی ہے، اس نے کہا کہ ٹھیک ہے، تو سچا ہے۔ چناں چہ اس نے ایک ہزار دینار مقررہ مدت کے لیے اس کو دے دیئے، پس وہ شخص بحری راستہ سے روانہ ہو گیا اور اپنی ضروریات کو پورا کیا، پھر اس نے سواری کے لیے کوئی کشتی وغیرہ تلاش کی تاکہ مقررہ مدت کے اندر اس کے پاس پہنچ سکے، لیکن اس کوکوئی کشتی نہ ملی۔ چنانچہ اس نے ایک لکڑی لے کر اس کو چھیلا اور اس کے اندر ایک ہزار دینار رکھ دیئے اور ایک رقعہ بھی اس صاحب کے نام رکھ دیا اور اس جگہ کو برابر کرکے مضبوطی سے بند کر دیا، پھر دریا کے کنارے آ کر یہ دعا کی کہ اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار بطور ادھار مانگے تھے اس نے مجھ سے کفیل کا مطالبہ کیا تو میں نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہی میرے کفیل ہیں، اس پر وہ راضی ہوا اور اس نے مجھ سے گواہ مانگے تو میں نے یہی کہا تھا کہ میرے لیے اللہ تعالیٰ ہی بطور گواہ کافی ہے، اس پر وہ راضی ہو گیا، میں نے اس کی رقم اس تک پہنچانے کے لیے خوب کوشش کی کہ مجھے کوئی کشتی مل جائے مگر نہ مل سکی۔


میں اس امانت کو تیرے حوالے کرتا ہوں (یہ کہہ کر) اس نے وہ لکڑی دریا میں پھینک دی اور خود واپس چلا آیا اور اپنے شہر میں جانے کے لیے کوئی کشتی وغیرہ ڈھونڈنے لگا، ادھر وہ آدمی جس نے اس کو قرض دیا تھا دریا کے کنارے آیا کہ دیکھتے ہیں کہ کوئی کشتی اس کا مال لے کر آئی ہے یا نہیں؟ اچانک اس کو وہی لکڑی نظر آئی جس کے اندر مال موجود تھا، اس نے وہ لکڑی اٹھالی کہ گھر میں ایندھن کے طور پر کام آئے گی لیکن جب اس نے اس لکڑی کو کھولا تو اس میں ایک رومال اور ایک رقعہ دستیاب ہوا، پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ شخص بھی آ گیا جس نے اس سے قرض لیا تھا اس نے آکر ایک ہزار دینار پیش کیے اور کہا کہ خدا جانتا ہے کہ میں کشتی کی تلاش میں برابر کوشش کرتا رہا تاکہ تیرا مال تجھے بروقت دے سکوں، لیکن اس کشتی سے پہلے مجھے اور کوئی کشتی نہ مل سکی جس پر سوار ہو کر حاضر ہو سکتا۔ اس نے کہا تو نے میری طرف کوئی چیز بھیجی تھی؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے آپ کو بتایا ہے کہ اس کشتی سے پہلے جس میں سوار ہو کر میں آیا ہوں مجھے کوئی کشتی نہیں ملی۔ اس نے کہا کہ تو پھر اللہ تعالیٰ نے تیرا قرض ادا کروا دیا ہے جو تو نے ایک لکڑی میں رکھ کر بھیجا تھا۔ لہٰذا تو اپنے یہ ہزار دینار لے اور واپس روانہ ہو جا۔
(بخاری شریف: 2291)

6 comments: