Thursday 6 December 2018

آبادی کے لیے ویرانی ضروری ہے


دہقان کدال لے کر زمین کھود رہا تھا۔ ایک بے وقوف پاس سے گزرا اور کہنے لگا اے کسان! تم کیسے ظالم ہو کہ ہموار زمین کو خراب کر رہے ہو۔ دہقان بولا۔ بیوقوف۔ جا اپنا کام کر تجھے اتنی بھی خبر نہیں کہ ہر ویرانی میں آبادی ہے۔ ارے اگر میں زمین کے سینے کو ہل سے نہ چیروں اور اس کے ڈھیلوں کو کدال سے ریزہ ریزہ نہ کروں تو یہ بیج کس طرح قبول کرے گی یہ جو گل و گلزار نظر آ رہے ہیں۔ یہ زمین کی ویرانی ہی سے پیدا ہوئے ہیں۔

اگر زمین کو کھودانہ جائے تو بیل بوٹے کس طرح اگیں۔ مٹی کھودنے سے قطع نظر اگر تم معاملات پر غور کرو تو معلوم ہو گا کہ ہر خرابی میں آبادی اور ہر تکلیف میں راحت ہے۔ مثلاً جب تک سربستہ پھوڑے (چغر) کا منہ نہ چیریں مواد خارج ہو کر جسم تندرست نہیں ہو سکتا۔ جب تک خلفوں کو دوا سے نہ جلائیں سوزش کس طرح دور ہو سکتی ہے۔ اور شفا کیسے حاصل ہو۔ جب تک درزی کپڑے کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے نہ کرے پوشاک تیار نہیں ہو سکتی۔ جب تک بڑھئی لکڑی اور لوہار لوہے کو نہ کاٹیں۔ مفید طلب اشیا نہیں بن سکتیں۔ جب تک دواؤں کو کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ نہ کردیں دوائیں نہیں بنا سکتے۔ قصاب جب تک بکری کو چیر پھاڑ کر قیمہ نہ کردے کوفتے وغیرہ تیار نہیں ہو سکتے۔ جب تک گندم کو چکی میں نہ پیسا جائے کھانا تیار نہیں ہو سکتا۔ پس ثابت ہوا کہ ہر آبادی کے لئے اول ویرانی ضروری ہے۔

(حکایاتِ رومی سے ماخذ)

No comments:

Post a Comment