یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت کا واقعہ ہے کہ ایک سارنگی بجانے والا گویا بہت مشہور تھا۔ اس کی آواز اس قدر خوش کن تھی کہ پرندے بھی اس کی آواز سن کر مست ہوجایا کرتے تھے۔ دور دور سے لوگ اس کا گانا سننے کے لیے آیا کرتے تھے۔ اس گویے کی آواز سننے والوں کے دلوں میں عجیب مستی اور سرور کی کیفیت پیدا کردیتی تھی اس کی مسحور کن آواز سن کر دلوں کی دھڑکن تیز ہو جایا کرتی اور عجب مدہوشی کا عالم چھا جایا کرتا تھا۔ جب تک وہ سارنگی والا گویا جوان رہا اس کی آواز کی دھوم مچی رہی اور اس کی شہرت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔
جب اس کی عمر ڈھل گئی اور بوڑھا ہو گیا، اس کے منہ سے دانت نکل گئے، کمر ٹیڑھی ہو گئی۔ وہ آواز جو کہ رشک کا باعث تھی بوڑھے گدھے کی آواز کی طرح ہو گئی۔ اب کوئی اس کا گانا سننے نہ آتا تھا۔ اس کی آواز کا جادو ختم ہو چکا تھا۔ لوگوں کو اب اس میں کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔ ستر سال عمر کا یہ گویا بڑھاپے کی وجہ سے انتہائی نحیف ہو گیا۔ اس کی کمائی کا ذریعہ صرف گانا تھا وہ بند ہو گیا تو نوبت فاقوں تک آ پہنچی۔ وہ پیسوں پیسوں کا محتاج ہو گیا۔ کھانے پینے کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہ رہا تھا۔
آخر ایک دن اس نے خلوص دل کے ساتھ اللہ تعالی کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگی اور کہا، اے اللہ! تو نے مجھے بہت عمر اور بہت مہلت دی۔ اے اللہ! تو نے ایک کمینہ پر مہربانیاں کیں۔ میں نے ستر سال گناہ کیے لیکن تو نے مجھ سے ایک دن بھی عطا واپس نہ چھینی اور میرے گناہوں کی پردہ پوشی کرتے ہوئے درگزر فرماتا رہا۔ اے اللہ! آج میں صدق دل سے تیرے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔ اے اللہ میری توبہ قبول فرما تو ہی میرا پرسان حال ہے مجھ پر رحم فرما۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی سارنگی اٹھائی اور مدینہ منورہ کے قبرستان کی طرف آہیں بھرتا ہوا چل دیا۔ قبرستان میں پہنچ کر وہ بہت رویا اور گڑگڑا کر اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور روتے روتے وہ سارنگی کا تکیہ بنا کر ایک قبر کے پاس سو گیا۔
جب یہ سارنگی بجانے والا قبرستان میں سویا پڑا تھا تو عین اس وقت جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اپنے روزمرہ کام میں مصروف تھے اللہ تعالی نے آپ پر نیند طاری کر دی۔ یہاں تک کہ نیند کے غلبے کی وجہ سے آپ اپنے آپ کو سنبھال نہ سکے۔ آپ نے بہت کوشش کی کہ نیند طاری نہ ہو مگر نیند جانے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ آپ کو سخت تعجب ہوا کہ اس وقت سونے کی عادت نہیں ہے، پھر پتہ نہیں نیند کیوں آ گئی ہے۔
جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو نیند آ گئی اور آپ سو گئے تو خواب میں غیب سے ندا آئی کہ یہ نیند بلا مقصد نہیں ہے۔ اے عمر رضی اللہ تعالی عنہ اٹھو اور ہمارے ایک بندہ خاص کو ضرورت سے نجات دلا دو۔ ہمارا ایک خاص بندہ قبرستان میں سو رہا ہے۔ بیت المال سے سات سو دینار نکال کر اپنے ساتھ لے جائو اور اس کو دے کر آئو۔اس کے ساتھ ہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی آنکھ کھل گئی۔ آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کی خدمت کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ سات سو دینار ساتھ لیے اور فوراً مدینہ منورہ کے قبرستان کا رخ کیا۔ قبرستان میں آپ نے ہر طرف تلاش کیا لیکن سوائے اس بوڑھے کے آپ کو کوئی اور نہ دکھائی دیا۔ دل میں خیال کیا کہ یہ بوڑھا اللہ کا خاص بندہ ہو گا۔ چناچہ پھر ایک مرتبہ قبرستان کا چکر لگایا اور بوڑھے کے سوا کسی اور کو نہ دیکھا۔ پھر دل میں خیال آیا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ہمارا ایک خاص بندہ ہے۔ یہ بوڑھا سارنگی نواز اللہ کا خاص بندہ کیسے ہو سکتا ہے؟ چناچہ آپ نے قبرستان کا ایک چکر لگایا تلاش کے بعد جب یہ یقین ہو گیا کہ قبرستان میں بوڑھے کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے تو سمجھ گئے کہ یہی اللہ کا خاص بندہ ہے جو سویا پڑا ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ انتہائی خاموشی اور ادب کے ساتھ اس سارنگی نواز کے نزدیک ہی بیٹھ گئے۔ اتفاق سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو چھینک آ گئی۔ چھینک کی آواز سن کر وہ بوڑھا اٹھ بیٹھا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے پاس دیکھ کر حیران ہو گیا اور کانپنے لگا، یا اللہ! مجھ جیسے خطاکار کے پاس عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کیوں بیٹھے ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا جلال اور غصہ مجھ جیسے گناہ گار کو نہیں چھوڑے گا۔ فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اس بوڑھے کو خوف زدہ حالت میں دیکھا تو فرمایا، مجھ سے خوف نہ کر کیونکہ میں تو تیرے لیے اللہ تعالی کی طرف سے خوشخبری لے کر آیا ہوں۔ اللہ تعالی نے تیری بہت تعریف کی ہے اور مجھے تیرے پاس بھیجا ہے۔ اللہ تعالی نے تجھے سلام کہا ہے اور یہ سات سو دینار تیرے لیے بھیجے ہیں اور کہا ہے کہ ان کو خرچ کر، جب ختم ہو جائیں گے تو تمہیں مزید بھیج دئیے جائیں گے۔
سارنگی نواز بوڑھے نے جب یہ سنا تو دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اور سارنگی کو زمین پر مار کر ریزہ ریزہ کر دیا اور بولا، اے سارنگی تو ہی خدا سے میرا پردہ تھی۔ تیری وجہ سے میں اللہ کے راستے سے دور چلا گیا تو نے ہی ستر سال میرا خون پیا۔ تیری وجہ سے میرا منہ گناہوں سے کالا ہو گیا۔ پھر بوڑھے نے اپنا سر سجدے میں رکھ دیا اور گڑگڑا کر کہنے لگا، اے اللہ! تو نے مجھ جیسے گناہ گار پر اس قدر کرم کیا کہ خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو میری خدمت کے لیے بھیج دیا۔ میں نے تو کبھی بھولےسے بھی تیرا نام نہیں لیا تھا۔ مگر تو نے مجھ خطا کار کو اس حالت میں بھی یاد رکھا، اے اللہ! میری اس زندگی پر رحم فرما جو ظلم میں بسر ہوئی۔ افسوس کہ میں نے اپنی عمر کا لمحہ لمحہ ضائع کر دیا۔ میں موت کے تلخ وقت کو بھول گیا تھا۔ اے اللہ! میں نے خود اپنے آپ سے اس جہان میں انصاف نہ کیا۔ میری ستر سال کی عمر بے کار گزر گئی۔ اے اللہ! تو نے میرے گناہوں کے باوجود مجھ کو انعام سے نوازا، یہ کہتے کہتے بوڑھے کی ہچکی بندھ گئی۔ اس کا دل اب اس دنیا سے اچاٹ ہو چکا تھا۔ وہ اللہ کے حضور پھر گڑگڑایا اور کہا، اے اللہ! تو مجھے اپنے پاس بلا لے اب مجھے اس دنیا میں رہنے کی کوئی تمنا نہیں ہے۔ یہ کہہ کر بوڑھا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس کی دعا قبول ہوئی۔ اچانک وہ گرا اور اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کر دی۔
اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر صدق دل سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے توبہ کی جائے تو اللہ تعالی جو کہ غفورورحیم ہے توبہ کو قبول فرما لیتا ہے اور انسان کی ندامت کے آنسو گناہوں کو دھونے کا سبب بن جاتے ہیں۔
(حکایات رومی سے ماخذ)