ہر نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔ اس لیے ہر شخص کو موت سے قبل اپنی فائل یعنی معاملات کو درست کر لینا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک صحابی نے سوال کیا یا رسول اللہ! سب سے زیادہ سمجھ دار آدمی کون ہے؟ فرمایا کہ جو موت کے لیے ہر وقت تیاری میں مشغول رہتا ہے اور جو موت کو کثرت سے یاد رکھتا ہو۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ ایک مرتبہ ایک جنازہ کے ساتھ تشریف لے گئے اور قبرستان میں پہنچ کر علیحدہ ایک جگہ بیٹھ کر سوچنے لگے۔ کسی نے عرض کیا امیرالمؤمنین آپ اس جنازہ کے ولی تھے، آپ ہی علیحدہ بیٹھ گئے۔ فرمایا ہاں! مجھے ایک قبر نے آواز دی اور مجھ سے یوں کہا کہ اے عمر بن عبدالعزیزؓ تو مجھ سے یہ نہیں پوچھتا کہ میں آنے والوں کے ساتھ کیا کیا کرتی ہوں؟ میں نے کہا ضرور بتا۔ اس نے کہا ان کے کفن پھاڑ دیتی ہوں، بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہوں، خون سارا چوس لیتی ہوں، گوشت سارا کھا لیتی ہوں، اور بتاؤں کہ آدمی کے جوڑوں کے ساتھ کیا کرتی ہوں؟ مونڈھوں کو بانہوں سے جدا کردیتی ہوں اور بانہوں کو پہنچوں سے جدا کر دیتی ہوں اور سرینوں کو بدن سے جدا کر دیتی ہوں اور سرینوں سے رانوں کو جدا کر دیتی ہوں اور رانوں کو گھٹنوں سے اور گھٹنوں کو پنڈلیوں سے پنڈلیوں کو پاؤں سے جدا کر دیتی ہوں۔ یہ فرما کر عمر بن عبدالعزیزؓ رونے لگے اور فرمایا دنیا کا قیام بہت ہی تھوڑا ہے اور اس کا دھوکا بہت زیادہ ہے، اس میں جو عزیز ہے وہ آخرت میں ذلیل ہے، اس میں جو دولت والا ہے، وہ آخرت میں فقیر ہے، اس کا جوان بہت جلد بوڑھا ہو جائے گا، اس کا زندہ بہت جلد مر جائے گا، اس کا تمہاری طرف متوجہ ہونا تم کو دھوکے میں نہ ڈال دے حالاں کہ تم دیکھ رہے ہو کہ یہ کتنی جلدی منہ پھیر لیتی ہے اور بے وقوف وہ ہے جو اس کے دھوکے میں پھنس جائے۔ کہاں گئے اس کے دلدادہ جنہوں نے بڑے بڑے شہر آباد کیے، بڑی بڑی نہریں نکالیں، بڑے بڑے باغ لگائے اور بہت تھوڑے دن رہ کر سب چھوڑ کر چل دیے اور وہ اپنی صحت اور تندرستی سے دھوکے میں پڑے کہ صحت بہتر ہونے سے ان میں نشاط پیدا ہوا اور اس سے گناہوں میں مبتلا ہوئے، وہ لوگ خدا کی قسم دنیا میں مال کی کثرت کی وجہ سے قابل رشک تھے باوجود یہ کہ مال کے کمانے میں ان کو رکاوٹیں پیش آتی تھیں مگر پھر بھی خوب کماتے تھے، ان پر لوگ حسد کرتے تھے لیکن وہ بے فکر مال کو جمع کرتے رہتے تھے اور اس کے جمع کرنے میں ہر قسم کی تکلیف بخوشی برداشت کرتے تھے لیکن اب دیکھ لو کہ مٹی نے ان بدنوں کا حال کیا کر دیا ہے اور خاک نے ان بدنوں کو کیا بنا دیا؟ کیڑوں نے ان کے جوڑوں اور ان کی ہڈیوں کا کیا حال بنا دیا؟ وہ لوگ دنیا میں اونچی اونچی مسہریوں اور اونچے اونچے فرش اور نرم نرم گدوں پر نوکروں اور خادموں کے درمیان آرام کرتے تھے، عزیز و اقارب رشتہ دار اور پڑوسی ہر وقت دلداری کو تیار رہتے تھے، لیکن اب کیا ہو رہا ہے؟ آواز دے کر ان سے پوچھ کہ کیا گزر رہی ہے؟ غریب امیر سب کے سب ایک میدان میں پڑے ہوئے ہیں، ان کے مال دار سے پوچھ کہ اس کے مال نے کیا کام دیا؟ ان کے فقیر سے پوچھ کہ اس کے فقر نے کیا نقصان دیا ان کی زبان کا حال پوچھ جو بہت چہکتی تھی، ان کی آنکھوں کو دیکھ کہ دنیا میں وہ ہر طرف دیکھتی تھیں، ان کی نرم نرم کھالوں کا حال دریافت کر، ان کے خوبصورت اور دلربا چہروں کا حال پوچھ کہ کیا ہوا، ان کے نازک بدن کو معلوم کر کہاں گیا اور کیڑوں نے کیا حشر کیا؟ افسوس صد افسوس! اے وہ شخص جو آج مرتے وقت اپنے بھائی کی آنکھ بند کر رہا ہے، اپنے بیٹے ، اپنے باپ کی آنکھ بند کر رہا ہے، ان میں کسی کو نہلا رہا ہے اور کسی کو کفن دے رہا ہے، کسی کے جنازے کے ساتھ جا رہا ہے، کسی کو قبر کے گڑھے میں ڈال رہا ہے، کل کو تجھے یہ سب کچھ پیش آنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
یوں تو دنیا دیکھنے میں کس قدر خوش رنگ تھی
قبر میں جاتے ہی دنیا کی حقیقت کھل گئی
(ذکر اللہ اور اطمینانِ قلب سے اقتباس)
No comments:
Post a Comment