کیا آپ نامور ادیب بننا چاہتے ہیں؟ ایک معروف موسیقار یا ہدایت کار؟ بہت بڑے شاعر یا موجد۔۔۔۔۔؟ آپ میں سے بیشتر کا جواب "ہاں" میں ہو گا مگر اس کے ساتھ ہی بہت سے افراد مایوسی سے یہ کہہ اٹھیں گے کہ یہ میرے بس کی بات کہاں۔۔۔۔۔؟ قدرت نے ہر شخص کو تخلیقی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں۔ آپ کا کام انہیں اجاگر کرنا اور کام میں لانا ہے۔ تخلیقی صلاحیت سے مراد ہے کہ ایسی صلاحیت جو آپ سے ایک نیا اور اچھوتا کام کرالے اور اس اندازمیں اس سے پہلے وہ کام کسی نے نہ کیا ہو۔۔۔۔۔عموماً تخلیقی صلاحیت کو پیدائشی صلاحیت کہا جاتا ہے لیکن یہ بات درست نہیں۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق انسان کسی بھی ہنر یا کام کی طرف متوجہ رہے تو اس میں جدت اور تخلیقات پیدا کر سکتا ہے۔ نظامِ قدرت کا مربوط اور جامع نظام انسان کو غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ فطرت انسان کی رہنمائی کرتی ہے۔ آج سائنس کے جدید دور تک موجد کے ذہنوں میں اُبھرنے والے خیالات کسی نہ کسی فطری واقعہ کے سبب رونما ہوئے۔ دنیا میں واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن ان واقعات سے کوئی نئی چیز دریافت کرنے والا تخلیق کار بن جاتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ نئے خیالات کی نشوونما کے عمل میں درج ذیل چند مراحل سے گزرنا ضروری ہے:
معاملہ کا جائزہ بصیرت سے لیجیے:
فرض کریں کہ آپ کے سامنے ایک مسئلہ ہے جسے آپ حل کرنا چاہتے ہیں یا آپ کوکوئی کام کرنا ہے۔ مثلاً گھر کو ازسرِنو آراستہ کرنا ہے یا آپ کو کسی نئی نوکری کی تلاش ہے، یا آپ کمپنی سے جو فالتو سامان نکلتا ہے آپ اسے کوئی نئی شکل دے کر مزید منافع کمانے کے لیے سوچ رہے ہیں۔۔۔۔۔ یہ ساری مثالیں دراصل بصیرت کی ہیں۔ یعنی موقع کی پہچان کی۔ ابتداء یہیں سے ہوتی ہے۔
خیالات کی عملی تشکیل کے لیے:
اب آپ اپنی نگاہ میں آنے والے آئیڈیاز کو ٹھوس شکل میں لانے کے لیے طریقے سوچتے ہیں۔ اسے کس طرح بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔؟ اس سلسلے میں یوں کریں کہ زیادہ سے زیادہ مواد اس موضوع پر جمع کریں۔ معلومات حاصل کریں۔ اس کے لیے کتابیں پڑھیں۔ دوسروں سے اس پر بحث کریں۔ سوالات کریں اور نوٹس لیں۔ اپنے ذہن کو کھلا رکھیں۔ مشہور آرٹسٹ پکاسو نے ایک بار کہا تھا کہ آرٹسٹ ہر وقت اپنے ذہن کو جذباتی سطح پر کسی بھی چیز سے تاثر حاصل کرنے لیے کھلا رکھتا ہے۔ چاہے یہ تاثر آسمان سے وارد ہو، کسی پتے سے ملے، کسی کی شکل دیکھ کر پیدا ہو یا مکڑی کا جالا اس کا باعث بنے۔ دراصل یہ خیالات ایک اسپرنگ بورڈ کی مانند ہوتے ہیں جس پر ہم اپنی قوتِ متخیلہ کو لمبے غوطے کے لیے چھلانگ کا کام لے سکتے ہیں۔
غوروفکر:
خیالات کو بسا اوقات کافی عرصے تک پرورش گاہ میں ڈالے رکھنا پڑتا ہے، جیسے مرغی اپنے انڈوں کو سیتی ہے۔ یہاں آپ کو اپنے لاشعور کو موقع دینا ہوتا ہے کہ وہاں کوئی اطلاع سامنے آئے۔ اس کے لیے سوجائیں، گھومیں پھریں، اس بات کو ذہن میں ہی چھوڑ دیں، کسی اور کام پر لگ جائیں اور شعور کو اس پر غور کرنے کا موقع فراہم کریں۔ ہو سکتا ہے، اس میں کافی عرصہ لگ جائے، لگ جانے دیں۔ تفکر کے اس وقت کو بے کار نہ سمجھیں۔ ایک وقت آپ پر نیا در ضرور کھلے گا۔
اپنے ذہن کو انکشافات کے لیے تیار رکھیے:
تخلیقی پروسیس کا یہ مرحلہ ایک معنوں میں آئیڈیے کا "کلائمیکس" کہلاتا ہے۔ پہلے پہلے اچانک ایک آئیڈیا ذہن میں ابھرتا ہے اور پھر ہر کڑی اپنی جگہ بیٹھی محسوس ہوتی ہے۔
تجزیہ کیجیے:
بے شک حل کا انکشاف ایک حیرت انگیز اور دل خوش کن تجربہ ہے لیکن اکثر اوقات یہ ایک دھوکا بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی خوبصورتی ہمیں بہکا سکتی ہے۔ ضرورت ہوتی ہے کہ اس موقع پر احتیاط برتی جائے اور ذہانت اور قوتِ متخیلہ کو بروئے کار لایا جائے۔ بھر جو کچھ ذہن میں وارد ہوا ہو اسے منطقی پیمانوں پر پرکھا جائے۔ اس موقع پر آپ کو صحیح و غلط کا امتیاز کرنا ہوگا۔ اسے دوسروں کے سامنے رکھیں ان کی آراء معلوم کریں۔ ضرورت پڑے تو اسے تبدیل کریں۔ ہو سکتا ہے کہ اس صورت میں اس کی کوئی بالکل نئی شکل برآمد ہو۔
مختصراً یہ کہ تخلیقی خیالات کو اس وقت ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب آپ یہ جان لیں کہ ہر تخلیقی عمل میں کئی مراحل درپیش ہوتے ہیں۔ پہلے ذہن میں ایک نیا آئیڈیا آتا ہے۔ پھر آپ اسے بروئے کار لانے کے طریقے سوچتے ہیں۔ معلومات وغیرہ جمع کرتے ہیں۔ پھر ایک وقفہ آتا ہے جس میں لاشعور اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ پھر انکشافی مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اس میں لاشعوری کردار سطح پر ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اس کی تحقیق ضروری ہوتی ہے یعنی یہ کس حد تک درست ہے یا غلط۔
کچھ شرائط ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی تخلیقی صلاحیتیں واقعی کام کر سکتی ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد ایک اور بات ضروری ہوتی ہے۔ آپ کو اپنے سامنے مقصد بھی رکھنا ہوتا ہے۔ یعنی اس سے آپ کو کیا ملے گا۔۔۔۔۔؟ کیا اس کے ذریعے آپ کو بہتر پوزیشن مل سکتی ہے، کیا اس سے کوئی بڑا مالی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟ کیا اس سے آپ کو شہرت مل سکتی ہے؟ یا اس کے ذریعے آپ کو کوئی روحانی سکون یا اطمینانِ قلب ملنے کا امکان ہے۔۔۔۔۔؟ وٖغیرہ۔ اچھا آئیڈیا وہیں جنم لیتا ہے جہاں دماغ میں مقصد حاصل کرنے کا جنون ہو۔
جس طرح کسی "مقصد" کا وجود ضروری ہے۔ اسی طرح ہمیں اپنے آئیڈیے کے فروغ کے لیے بھی یہ سوچنا ہو گا کہ اسے بلا تاخیر کریں۔ آدمی کے اندر کام کو التواء میں ڈالنے کی ایک فطری عادت ہوتی ہے۔ نئے خیالات کے ساتھ عمل میں یہ ضروری ہے کہ آپ اس فطری عادت کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں۔ ایک ڈیڈ لائن طے کرلیں۔ پھر اسی شیڈول پر دلجمعی اور استقلال سے عمل شروع کر دیں۔ اس طرح تاخیر و التواء کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
تخلیقی مزاج کے اشخاص کے ہاں ذہانت بھرا کھلنڈرا پن بھی ہوتا ہے۔ ہم سب لوگ بھی اسی طرح کا رویہ اپنا کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دے سکتے ہیں۔ یعنی تھوڑی سی لاپرواہی، تھوڑی سی بے احتیاطی وغیرہ کا رویہ۔ اپنی تخلیقی قوتوں کو زیادہ سنجیدگی سے نہ اپنائیں، چاہے ان کے نتائج خاصے سنجیدہ ہی کیوں نہ ہوں۔
یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ کس طرح، کیا آپ کے لیے کارآمد ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی بھی چیز ہو سکتی ہے۔ ٹہلنے کا عمل، چائے پینے کا عمل یا کچھ بھی۔ نکتہ یہ ہے کہ جو بات آپ کو سازگار محسوس ہو اسے اپنائیں۔ تخلیقی لوگ بے شمار عملی ترکیبوں کو کام میں لاتے رہتے ہیں۔ جن کے ذریعے ان کے اندر نئے خیالات اُبھرتے ہیں۔
تبدیلی کہاں ضروری ہے۔۔۔۔۔؟:
بڑھانا۔ گھٹانا۔ بڑا کرنا۔ چھوٹا کرنا۔ اُلٹا کرنا۔ یکجا کرنا۔ یہ کچھ کام ہیں۔ اپنے مسئلے پر انہیں منطبق کر کے دیکھیں۔ مثلاً ایک اسکریو ڈرائیور لیں۔ یہ گول ہے، اس کا ہینڈل لوہے کا ہے، لکڑی کا ہے، اس کی شکل چوکور ہے۔ اس کی ٹپ مڑی ہوئی ہے۔ فرض کریں، آپ اس سکریو ڈرائیور کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ اس کی تمام صورتوں پر توجہ دیں۔ ایک ایک پہلو کو دیکھیں۔ کیا اس کی شکل بدلنے سے کام چلے گا۔ کیا اس کا ہینڈل بدلنا چاہیے۔ کیا اسے الیکٹرک ڈرل بنایا جائے۔ خود سے پوچھیے۔ آپ کیا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔؟ اور کون سی صورت اسے دی جائے کہ آپ کا مسئلہ حل ہو جائے۔
اپنے خیالات کو لکھ لیں:
نہ جانے کس وقت ذہن میں کیا بات آ جائے۔ تیار رہیں اور اسے لکھ لیں۔
آئیڈیا بنک:
کسی خاص موضوع سے متعلق جو خیالات بھی وقتاً فوقتاً ذہن میں آئیں انہیں کہیں محفوظ کریں۔ فائل بنائیں۔ یہ کسی بھی وقت کام آ سکتے ہیں۔
وقت کو استعمال کریں:
نہ جانے کس وقت کون سا حل ذہن پر منکشف ہو۔ یہ آدھی رات کو بھی ذہن میں آ سکتا ہے۔ کسی نئے خیال پر کام کرتے وقت جو جو رکاوٹیں راہ میں ملیں، انہیں بھی ریکارڈ پر لائیں، پھر سونے کے لیے لیٹ جائیں۔ اپنے لا شعورکو کام کرنے کا موقع دیں۔ ممکن ہے بیداری پر آپ کو کوئی معقول حل مل جائے۔ نیند نہ آنے کا مرض، اسے بھی کام میں لایا جا سکتا ہے۔ بجائے اس کے کہ آپ سوچ سوچ کر دل جلائیں کہ نیند کیوں نہیں آتی۔۔۔۔۔! ذہن میں نئی باتیں اور نئے آئیڈیاز اٗبھارنے کی سعی کریں۔ ان کے ذریعے اپنے مقاصد تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ ہو سکتا ہے، ذہن میں کوئی بہت ہی مفید خیال آ جائے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ان کے بارے میں سوچنے سے آپ کو نیند بھی آ سکتی ہے۔
زندگی میں روزمرہ کے زیادہ تر کام ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر دماغی محنت کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی۔ جو وقت مل جاتا ہے اسے آپ تخلیقی کاموں کے لیے استعمال کیوں نہیں کرتے۔۔۔۔۔؟ ہر بے کار لمحہ کسی کارآمد کام میں استعمال ہو سکتا ہے۔
خاص خیال رکھیں کہ جب بھی کوئی نیا آئیڈیا ذہن میں آئے تو پھر فوری طور پر کوئی فیصلہ نہ کریں۔ ورنہ وہی بات ہو سکتی ہے جیسے کوئی بیک وقت ایکسلریٹر بھی دبائے اور بریک بھی۔ ذہن میں نئے خیالات اُبھرنے دیں پھر ان پر یکے بعد دیگرے غور کرکے فیصلہ کریں۔ خیالات کو اس وقت تک ترک نہ کریں جب تک وہ بے معنی ثابت نہ ہو جائیں۔ جب تک آپ اپنی قوتِ متخیلہ کو خود تسلیم نہیں کریں گے وہ کام نہیں کر سکے گی۔ اپنے اوپر اعتماد کریں۔