Sunday, 13 January 2019

حضرت سلطان باہوؒ


برصغیر پاک و ہند میں دینِ اسلام کی ترویج و ترقی میں مسلم صوفیائے کرام ؒ کا کردار خاصا روشن اور نمایاں ہے۔ انہی صوفیائے کرام ؒ میں ایک مستند نام حضرت سلطان العارفین محمد باہوؒ کا بھی ہے۔ حضرت سلطان باہوؒ کے والدین کا تعلق قبیلۂ اعوان سے تھا۔ آپ کا خاندان سلطنت دہلی کے دربار سے منسلک تھا اور ان کے اکثر لوگ پشت در پشت ملک و ریاست کے منصب دار چلے آ رہے تھے۔ حضرت سلطان باہوؒ کے والد بازید محمد بھی منصب دار تھے اور پورے علاقے میں اپنی شجاعت کی بدولت معروف حیثیت کے حامل تھے۔ بازید محمد شورکوٹ میں قیام پذیر ہوئے ابھی کچھ ہی ماہ گزرے تھے کہ سلطان محمد کی ولادت ہوئی۔ مختلف روایات میں آپ کے سنِ ولادت مختلف درج ہیں۔ مگر صحیح روایت یہی ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت شاہ جہاں کے عہدِ حکومت میں 1039ھ میں ہوئی۔ والدین نے آپؒ کا نام "سلطان محمد باہو" تجویز کیا۔ "باہو" کا مطلب ہے جو اللہ کے ساتھ ہو یا جس کے ساتھ اللہ ہو۔

نوجوانی کے دور میں داخل ہوتے ہی مرشدِ کامل کی تلاش شروع کر دی اور اپنا سفر مشرق کی جانب سے شروع کیا۔ اس زمانے میں تو شہروں اور آبادیوں کی اس قدر بہتات نہ تھی۔ کہیں کہیں شہر اور آبادی نظر آتی تھی۔ آپ اسی طرح ویرانوں اور جنگلوں میں سفر کرتے ہوئے مرشد کو تلاش کرتے رہے۔ اسی مسافرت کے دوران آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ جو بلند مرتبہ ولی کامل ہیں دریائے راوی کے کنارے مقیم ہیں اور لوگوں کو ان سے فیض حاصل ہوتا ہے۔ جب آپ شاہ صاحب کے پاس پہنچے تو معلوم ہوا کہ انہوں نے ایک دیگ کے نیچے آگ جلا رکھی ہے۔ یعنی اس دیگ میں پانی ہر وقت گرم رہتا ہے۔ جو بھی طالبِ حق آتا ہے تو شاہ صاحبؒ اس کو اس دیگ میں ہاتھ ڈالنے کا حکم دیتے ہیں اور وہ اپنے ظرف کے مطابق فیض حاصل کرتا ہے۔ کچھ روزحضرت سلطان باہوؒ یہ سب کچھ ملاحظہ فرماتے رہے پھر آپ شاہ صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے آنے کا مدعا بیان کیا۔ شاہ صاحبؒ نے بذریعہ کشف معلوم کرلیا کہ یہ نووارد کیا حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود فرمایا کہ "کیا تم نے دیگ میں ہاتھ ڈالا؟"


آپ نے عرض کیا "حضرت صاحب! میں نے دیگ میں ہاتھ ڈالنے والوں کا حال دیکھا مگر میری طلب تو اس سے پوری نہیں ہوتی۔"

شاہ صاحب نے فرمایا "اچھا ٹھیک ہے۔ تم ایسا کرو ابھی کچھ دن یہاں پر قیام کرو اور تمہارے ذمہ مسجد میں پانی کا انتظام کرنا ہے۔"

آپ نے یہ ذمہ داری قبول فرمائی اورمسجد کے خدام سے پانی بھرنے کے لیے مشک مانگی۔ خدام نے اسی وقت مشک حاضر کردی۔ مسجد کے کنارے ایک کنواں تھا، اس میں سے ڈول بھر بھر کر پہلے تو مشک میں ڈالا جاتا اور اس کے بعد مسجد کے صحن میں موجود حوض جو وضو کے لیے ہوتا ہے اس کو بھرا جاتا تھا۔ اسی طرح مسجد میں موجود طہارت خانوں کی ٹینکی کو بھرا جاتا تھا۔ یہ کام خاصا دقت طلب تھا اور یقینی طور پر ایک آدمی کے بس کا بھی نہیں تھا۔ حضرت سلطان العارفینؒ نے فقط ایک ہی مشک بھری اور اس مشک کے پانی سے مسجد کے صحن میں واقع حوض اور حمام لبالب بھر گئے۔ شاہ صاحبؒ کے خدام نے جب یہ واقعہ ملاحظہ کیا تو بھاگم بھاگ شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام ماجرا کہہ سنایا۔ شاہ صاحبؒ نے ان سے کہا کہ اس نووارد کو میرے پاس حاضر کرو۔ اب حضرت حبیب اللہ شاہؒ کو بخوبی اندازہ ہوچکا تھا کہ یہ کوئی عام طالب علم نہیں بلکہ فقر کی کافی منازل طے کر چکا ہے۔ انہوں نے آپ سے فرمایا کہ "اے باہو! تم جس نعمتِ الہٰی کے حقدار ہو وہ تو ہمارے امکان سے باہر ہے۔ البتہ ہم تمہیں اس سلسلہ میں یہ ضرور بتلائیں گے کہ تم کو یہ فیض کہاں سے حاصل ہوسکتا ہے۔ تم ایسا کرو کہ میرے شیخ طریقت حضرت سید پر عبدالرحمٰن دہلوی قادریؒ کے پاس چلے جاؤ۔ ان کی خدمت گزاری کرو۔ امید ہے کہ تم گوہر مقصود حاصل کر لو گے۔"


قصہ مختصر آپؒ عازمِ دہلی ہو گئے۔ اُدھر دلی میں آپؒ کی آمد سے قبل ہی حضرت عبدالرحمٰن قادریؒ نے اپنے ایک خادم کو حکم دیا کہ اِس حلیہ کا ایک شخص تمہیں فلاں جگہ ملے گا تم بڑی عزت کے ساتھ اس کو میرے پاس لے آؤ۔ سلطان محمدؒ دہلی کے قریب پہنچے تو وہ خادم آپؒ کو ملا اس خادم نے آپؒ کو سلام عرض کیا اور شیخ ؒ کا حکم سنایا۔ آپؒ تو آئے ہی اس مقصد کے لیے تھے۔ آپؒ نے اس کو ایک سعادت خیال کیا اور اس خادم کے ساتھ خاموشی کے ساتھ چل دیئے۔

جب سلطان العارفینؒ، شیخ ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپؒ کو اپنی خانقاہ میں بڑی گرمجوشی سے اپنے گلے لگایا۔ آپؒ کو خلوت میں لے گئے اور فیوض و برکات سے نوازا۔ اسی کے ساتھ ہی حضرت شیخ عبدالرحمٰن قادریؒ نے آپؒ کو چند ہدایات دیں اور رخصت کی اجازت مرحمت فرما دی۔ حضرت سلطان العارفین ؒ نے مرشد سے بعد از بیعت اجازت طلب فرمائی۔ اجازت حاصل کرکے آپؒ نے دہلی کی سیر شروع کی۔ ساتھ ہی ساتھ آپؒ نے بطورِ آزمائش  محض دیکھ کر لوگوں کو پریشانیاں بتلانا شروع کیں اور ان کا تدارک بھی فرمانا شروع کیا۔ بہت ہی جلد آپ کی شہرت پورے دہلی شہر میں پھیل گئی اور پریشان حال لوگوں نے جوق در جوق آپؒ سے رجوع کیا۔ وہ لوگ جن کا کوئی بھی پرسانِ حال نہ تھا آپؒ ان کے لیے ایک روشنی کی کرن بن گئے۔ لوگ آپؒ سے فیض حاصل کرتے اور روانہ ہوجاتے۔ ایک روز نمازِجمعہ کا وقت قریب تھا اس لیے آپؒ نے جامع مسجد دہلی کا رُخ کیا۔ مسجد میں داخل ہو کر آپؒ ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھ گئے اور عبادت میں مشغول ہو گئے۔ مسجد میں اس وقت اونگ زیب عالمگیر بھی مع اپنے مصاحبین موجود تھا۔ مسجد میں نمازیوں کی کثرت تھی۔ آپؒ نے جو سر اٹھا کر دیکھا تو ساری مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی نظر آئی۔ آپؒ نے ان کے قلوب کی طرف جو توجہ فرمائی تو پوری مسجد میں حاضرین پر وجد اور وارفتگی طاری ہونا شروع ہو گئی اور کچھ ہی دیر میں "حق ہُو" کی صدائیں گونجنے لگیں۔

جب سکوت ہوا تو اونگ زیب عالمگیر نے اپنے کوتوال سے پوچھا کہ "یہ کیا ماجرا تھا کہ سب پر ہی وجدانی کیفیت طاری ہوگئی۔۔۔۔۔؟" کوتوال نے عرض کیا "یا ظلِ الہٰی میرا خیال ہے کہ اس وقت کوئی ولی کامل اس مسجد میں موجود ہے"۔ اس پر بادشاہ نے اس کو حکم دیا کہ "اس ولی کو تلاش کرو"۔۔۔۔۔جب لوگوں نے آپؒ کی تصدیق کردی۔ کیونکہ عام لوگ تو آپؒ سے بخوبی واقف ہو چکے تھے اور تمام حاضرین میں صرف آپؒ ہی کامل سکون کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ کوتوال نے آپؒ سے عرض کیا کہ "شہنشاہ آپ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہے"۔۔۔۔۔ آپؒ نے اجازت دی تو بادشاہ نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ "یا حضرت! نظرِ کرم ہو"۔

آپؒ نے فرمایا کہ "اے شہنشاہِ ہند! میں ایک شرط پر توجہ دوں گا کہ آپ کی طرف سے آئندہ مجھے تلاش نہ کیا جائے"۔ اس نے وعدہ کر لیا۔ اس کے بعد آپؒ دوبارہ اپنے آبائی وطن شور کوٹ تشریف لے آئے اور متلاشیانِ حق کو فیوض و برکات سے نوازنے لگے۔

حضرت سلطان العارفین ؒ زیادہ تر مستغرق رہتے تھے۔ ذکر ہمیشہ آپ کے قلب میں جاری و ساری رہتا تھا۔ آپؒ بہت ہی کم  کسی ایک جگہ پر قیام پذیر رہے۔ آپ کے سفر کے تفصیلی حالات بدقسمتی سے ناپید ہو چکے ہیں۔ آپ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ میں 30 برس تک مرشد کامل کی طلب میں رہا اور تمام عمر طالب صادق کی طلب میں بسر ہوئی۔ آپؒ نے اپنی باطنی دولت اور روحانی نعمت کو کتابوں کی صورت میں قلمبند فرمایا اور اس طرح اپنے باطنی فیض کو طالبانِ حق اور صادقوں کے لیے عام فرما دیا کہ تا قیامت جو بھی چاہے ان سے حسبِ لیاقت فیض حاصل کر سکے۔

حضرت سلطان باہو ؒ شہرت کو ناپسند فرماتے تھے۔ اگر کبھی آپؒ سے کسی کرامت کا ظہور ہوتا تو وہ مقام ہی چھوڑ دیا کرتے اور کسی دوسری جگہ کو اپنا مسکن بنا لیتے۔ سلطان العارفین ؒ لوگوں کو عبادت کا درس دیا کرتے۔ اکثر یہ فرمایا کرتے کہ "تم لوگ اپنی اصلاح کرو اور کرامات کے چکر میں مت پڑو۔ کیونکہ اس طرح تم قصے کہانیوں میں مشغول ہو جاؤ گے"۔ ایک مرتبہ آپؒ نے ارشاد فرمایا کہ "اگر تو ہوا میں اڑے تو ایک مکھی کی طرح ہے اور اگر پانی پر چلے تو ادنیٰ تنکے کے برابر ہے اور اگر لوگوں کے دلوں کو اپنی کرامات سے اپنی طرف راغب کرے تو اہلِ ہوس کی نشانی ہے"۔ یعنی جو کوئی شخص ہوا میں اڑ کر دکھاتا ہو تو تمہیں اس کے کامل ولی اللہ ہونے میں یقین نہیں کر لینا چاہیے کیونکہ ایسا تو ایک مکھی بھی کر سکتی ہے اور اس طرح اگر کوئی شخص اپنی ولایت کے ثبوت میں تمہیں پانی پر چل کر دکھائے تو تمہیں اس کو ولی کامل نہیں مان لینا چاہیے کیونکہ ایسا تو ایک ادنیٰ تنکا بھی کرسکتا ہے اور اگر کوئی شخص لوگوں کے دلوں کو اپنی کرامات کے ذریعہ متوجہ کر لے تو بھی اس ولی اللہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کیونکہ یہ محض ہوس ہے۔

ایک روز بسلسلہ سیروسیاحت آپؒ کا گزر پنجاب کے ایک مقام دامان کوہ غربی جبل اسود کی طرف ہوا جہاں آپؒ نے ایک چھوٹے سے بچے کو چراگاہ میں گائے کے بچھڑے چراتے ہوئے پایا۔ آپؒ نے اس بچہ کی طرف فیض سے بھرپور نظر اٹھا کر توجہ فرمائی اور ایک ہی نظر میں اسے روحانیت کے کئی مدارج سے گزار دیا۔ اس بچے کا نام نورنگ عرف کتھران تھا۔ پھر سلطان العارفین ؒ وہاں سے کوہ شمالی سون سکیسر وغیرہ کے جنگلوں کی سیروسیاحت کے لیے روانہ ہو گئے۔ فیضیابی کے بعد اسی وقت سے نورنگ کتھران بھی آپؒ کی خدمت میں حاضر رہنے لگے۔

"مناقب سلطانی" کی روایت کے مطابق حضرت سلطان باہو ؒ، ذاتِ باری پر توکل فرماتے تھے۔ مغل شہنشاہ شاہجہاں کی طرف سے آپؒ کے والد محترم سلطان بایزید ؒ کو ایک وسیع جاگیر عطا ہوئی تھی یہ جاگیر پچاس ہزار بیگھے زمین اور اینٹوں کے ایک قلعے پر مشتمل تھی جس میں کئی آباد کنویں جاری تھے، ایک تو وسیع جاگیر کی موجودگی، دوسرے بچپن سے غلبۂ عشق الہی۔۔۔۔۔ یہی وہ عوامل تھے جن کے باعث حضرت سلطان باہو ؒ فکر دنیا سے آزاد رہے پھر بھی آپؒ کی حیاتِ مبارکہ میں دو مواقع ایسے نظر آتے ہیں جب آپؒ نے کاروبار ہستی میں حصہ لینے کی کوشش کی تھی۔ حضرت سلطان باہو ؒ نے دو مرتبہ کھیتی باڑی کی غرض سے بیلوں کی جوڑی خریدی، پھر خود ہی زمین جوتی مگر جب فصل پکنے کے قریب آئی تو آپ بیلوں کو چھوڑ کر سیروسیاحت کے لیے کسی طرف نکل گئے۔

 یہ اسی زمانے کا واقعہ ہے۔ جب حضرت سلطان باہوؒ کھیتی باڑی میں مصروف تھے۔ پنجاب کے کسی دور دراز علاقے میں ایک شریف شخص رہا کرتا تھا جس کی کئی بیٹیاں تھیں جو شادی کے قابل ہو گئی تھیں۔ وہ شخص اپنے گھرانے کا بھرم رکھنے کے لیے اُجلا لباس پہنتا تھا جسے دیکھ کر اہلِ محلہ سمجھتے تھے کہ وہ مالی طور پر آسودہ حال ہے۔ اس کی اسی ظاہری حالت سے متاثر ہو کر اچھے خاندان کے لوگوں نے اس کی بیٹیوں کے لیے رشتے بھیجے تھے مگر وہ اندرونی طور پر اس قابل نہیں تھا کہ بیٹیوں کی شادی کا انتظام کر سکے۔ آخر ایک دن وہ اپنے مسائل سے پریشان ہو کر کسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا۔

"شیخ! میرا تعلق سادات کے خاندان سے ہے۔ میں نے بہت اچھا وقت گزارا ہے مگر اب سفید پوشی کے سوا کچھ بھی باقی نہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں ایک مالدار شخص ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی سرمایہ جمع نہیں کر سکا۔ میں اپنی زندگی تو گزار چکا مگر بیٹیوں کا بوجھ برداشت نہیں ہوتا۔ قرض خواہ ہر وقت دروازے پر کھڑے رہتے ہیں۔ اب آپ ہی میرے حق میں دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان مشکلات سے نجات دیدے"۔

بزرگ کچھ دیر تک سید زادے کی حالت زار پر غور کرتے رہے بھر معزرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگے۔ "تمہارے مسئلے کا حل میرے پاس نہیں ہے۔"

"میں تو دعا کے لیے درخواست کر رہا ہوں"۔ سید زادے نے اداس لہجے میں عرض کیا۔

"اب دعا ہی تمہاری دوا ہے۔۔۔۔۔اور میری دعا میں اتنی تاثیر نہیں ہے کہ وہ تمہارے سر اور گھر سے گردشِ وقت کو ٹال دے"۔ بزرگ نے صاف صاف کہہ دیا۔

"میں نے تو لوگوں سے آپ کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے"۔ بزرگ کا انکار سن کر سید صاحب مزید دل سکستہ نظر آنے لگے۔

"وہ لوگوں کا حسنِِ ظن ہے مگر میں تمہیں حقیقت بتا رہا ہوں"۔ بزرگ نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ "مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ زمین اللہ کے مستجاب الدعوات بندوں سے خالی ہے، میں تمہیں ایک ایسے شخص کا پتہ دیتا ہوں جس کی زبان میں بہت تاثیر ہے۔ وہ مردِ حق دریاتے چناب کے کنارے قصبہ شورکوٹ میں رہتا ہے۔ اس کے آستانے پر حاضری دو۔ اللہ تمہاری مشکل آسان کرے گا"۔

سید صاحب کے چہرے سے کچھ دیر کے لیے رنج و الم کا غبار دھل گیا اور وہ تیز آندھیوں میں امید کا چراغ جلائے ہوئے شور کوٹ پہنچے۔

اس وقت حضرت سلطان باہوؒ سادہ لباس میں ملبوس اپنی زمین پر ہل چلا رہے تھے اگر کوئی اجنبی شخص، حضرت شیخؒ کو اس حالت میں دیکھتا تو یہی رائے قائم کرتا کہ یہ محض ایک کسان ہیں۔ سید صاحب نے بھی حضرت سلطان باہوؒ کے بارے میں یہی سوچا اور دل ہی دل میں افسوس کرنے لگے۔

"میرا سفر رائیگاں گیا، جو شخص خود اتنا پریشان حال ہو، وہ کسی دوسرے کی کیا مدد کر سکتا ہے"۔ یہی خیال کرکے سید صاحب واپس جانے کے لیے مڑے۔

ابھی سید صاحب ایک ہی قدم آگے بڑھے ہوں گے کہ حضرت سلطان باہوؒ کی صدائے دل نواز سنائی دی "سید صاحب۔۔۔۔۔! اتنا طویل سفر اختیار کیا اور موسم کی سختیاں برداشت کیں پھر بھی ہم سے ملاقات کیے بغیر واپس جا رہے ہو۔۔۔۔۔؟

اپنا نام سن کر سید صاحب حیرت زدہ رہ گئے فوراً گھوڑے کی پشت سے اترے، بڑی عقیدت کے ساتھ حضرت سلطان باہوؒ کی خدمت میں سلام پیش کیا اور سفر کی وجہ بیان کرنے لگے۔

حضرت سلطان باہوؒ نے بہت غور سے سید صاحب کی درخواست سنی پھر نہایت شیریں لہجے میں فرمانے "سید! تم میرا کام کر دو، میں تمہارا کام کیے دیتا ہوں اس لیے کہ کام کا بدلہ کام ہے"۔

سید صاحب نے بڑی حیرت سے حضرت سلطان باہوؒ کی طرف دیکھا "شیخ! ایک سوالی آپ کے کیا کام آ سکتا ہے؟"

"میں ایک ضروری کام سے فارغ ہو کر ابھی آتا ہوں جب تک تم میرا ہل چلاؤ، بس یہی کام ہے"۔ اتنا کہہ کر حضرت سلطان باہوؒ تشریف لے گئے۔

اس دوران سید صاحب ہل چلاتے رہے۔ حضرت سلطان باہوؒ کو دیکھ کر انہیں یقین سا ہو گیا تھا کہ وہ یہاں سے خالی ہاتھ نہیں جائیں گے۔

تھوڑی دیر بعد حضرت سلطان باہوؒ واپس آئے اور اپنے سامنے پڑا ہوا مٹی کا ایک ڈھیلا اٹھا کر زمین پر مار دیا۔ سید صاحب نے حضرت سلطان باہوؒ کے اس عمل کو بڑی حیرت سے دیکھا مگر دوسرے ہی لمحے ان کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں ارد گرد کے سارے ڈھیلے سونا بن گئے تھے۔

"سید! اپنی ضرورت کے مطابق سونا اٹھا لو"۔ حضرت سلطان باہو" نے بے نیازانہ انداز میں فرمایا۔

سید صاحب نے سونا اٹھا لیا۔ پھر حضرت سلطان باہوؒ کے دستِ مبارک کو بوسہ دیتے ہوئے بڑی وارفتگی کے عالم میں یہ شعر پڑھا   ؎

نظر جنہاں دی کیمیا، سونا کردے وٹ
قوم اتے موقوف نہیں، کیا سید کیا جٹ

"جن لوگوں کی نگاہ کیمیا اثر ہے، وہ ایک ہی نظر سے مٹی کو سونا بنا دیتے ہیں، یہ ذاتِ الہی کا فیض ہے جو کسی قوم پر موقوف نہیں، خواہ وہ سید ہو یا جٹ"،

63 سال تک کارِ مسیحائی انجام دینے کے بعد حضرت سلطان باہوؒ 1629ء میں بمطابق جمادی الثانی 1102ھ میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپؒ کو دریائے چناب کے کنارے موضع "قہرگان" کے قلعے میں سپرد خاک کیا گیا۔

1706ء میں دریائے چناب شدید طغیانی کی لپیٹ میں آگیا جس کے باعث آپؒ کے مزارِ مبارک کے غرق ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوا۔ نتیجتاً حضرت سلطان باہوؒ کے جسدِ مبارک کو بستی سمندری کے قریب منتقل کر دیا گیا۔ اس قدر طویل مدت گزر جانے کے بعد بھی آپؒ کا کفن تک میلا نہیں ہوا تھا۔

پھر 157 سال بعد 1863ء دریائے چناب میں دوبارہ خوفناک سیلاب آیا یہاں تک کہ پانی کی سرکش لہریں مزار چھونے لگی تھیں۔ ایک بار پھر آپ کے جسم مبارک کو منتقل کر کے گڑھ مہاراجہ (ضلع جھنگ) میں آسودۂ خاک کیا گیا۔ اس وقت بھی آپؒ کا کفن صحیح سالم تھا۔


3 comments: