Wednesday 16 January 2019

حکمت


ایک نوجوان نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کیا کہ اے اللہ کے پیغمبر! مجھے جانوروں کی زبان سکھا دیجئے۔ ہو سکتا ہے کہ میں حیوانات اور درندوں کی زبان سیکھ کر اللہ تعالیٰ کے دین میں کوئی عبرت حاصل کروں۔ کیونکہ میرے خیال میں انسانوں کی تمام باتیں تو دنیا داری کی ہیں۔ ہو سکتا ہے جانوروں کی باتوں کا کوئی اور معمول ہو اور آخرت کے بارے میں ہوں۔ مجھے یہ زبانیں سیکھنے کا بہت ہی شوق ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، اے بھولے انسان! شاید تجھے شیطان ملعون نے بہکایا ہے تیرا یہ شوق ٹھیک نہیں ہے۔ وہ نوجوان کہنے لگا، آپ اس وقت اللہ تعالیٰ کے نائب ہیں اگر آپ مجھے سکھا دیں آپ کا اس میں کیا نقصان ہے؟ جب اس نوجوان نے بے حد اصرار کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے رجوع کیا اور فرمایا، اے اللہ! اگر میں اس کو جانوروں کی زبانیں سکھا دوں تو یہ بات اس کے لیے نقصان دہ ہو گی اور اگر نہیں سکھاتا تو اس کا دل برا ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوا، اے موسیٰ! اس کو سکھا دو تا کہ اس کو پتہ چلے کہ ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے۔

چناچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو جانوروں کی زبانیں سکھا دیں۔ اس شخص نے اپنے گھر میں ایک کتا اور ایک مرغ پال رکھا تھا۔ ایک دن صبح کے وقت اس نے آزمائش کرنے کی خاطر مرغ اور کتے کی گفتگو سننے کا ارادہ کیا۔ اس کی خادمہ نے کھانا کھانے کے بعد دسترخوان کو جھاڑا اور اس میں سے روٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا زمین پر گرا۔ مرغ اور کتا دونوں اس روٹی کے ٹکڑے پر جھپٹے مگر مرغ اس کو اچک کر لے گیا۔ کتے نے مرغ سے کہا، اے ظالم! تو نے مجھ پر ظلم کیا تُو توگندم کا دانہ نہیں کھا سکتا یہ روٹی کا ٹکڑا جو کہ میری خوراک ہے اس کو بھی تو نے اچک کر کھا لیا ہے۔ یہ ٹکڑا مجھے کھا لینے دیتے تو تمہارا کیا جاتا اب پتہ نہیں مجھے کھانے کو کچھ ملے نہ ملے بھوک سے میرا برا حال ہوا جا رہا ہے۔


مرغ نے کتے کی یہ بات سنی تو کہنے لگا، چپ ہو جا غم نہ کر۔ اللہ تعالیٰ اس سے بہتر تجھے کھانے کو خوراک دے گا۔ کل ہمارے آقا کا گھوڑا مر جائے گا۔ تم پیٹ بھر کر اس کا گوشت کھا لینا۔ اس شخص نے جب یہ سنا تو اسی وقت گھوڑا بازار لے جا کر فروخت کر دیا وہ گھوڑا دوسرے دن مر گیا مگر یہ شخص نقصان نے بچ گیا۔ مرغ بے چارہ کتے کے سامنے شرمندہ ہوا۔ کتے نے مرغ سے شکایت کرتے ہوئے کہا، اے مرغ! تُو کس قدر چالاک اور چھوٹا ہے۔ وہ گھوڑا جس کے بارے میں تم نے کہا تھا کہ کل مرے گا اور تم اس کا گوشت جی بھر کر کھانا وہ کہاں ہے؟ مرغ بولا، میں جھوٹ نہیں کہتا تھا۔ ہمارے آقا نے اپنا گھوڑا دوسری جگہ فروخت کر دیا اور وہ وہاں جا کر مر گیا۔ اس طرح ہمارا آقا نقصان سے بچ گیا اور اس نے اپنی بلا دوسروں کے سر ڈال دی۔ لیکن کل ہمارے آقا کا خچر مرے گا اور تمہاری عید ہو جائے گی۔ پیٹ بھر کر خچر کا گوشت کھا لینا۔

اس شخص نے مرغ کی یہ بات سنی تو فوراً خچر کو بھی فروخت کر دیا اور اس طرح اس نقصان سے بھی بچ گیا۔ اگلے دن کتے نے مرغ سے شکوہ کرتے ہوئے کہا، اے جھوٹوں کے سردار! آخر تُو کب تک جھوٹ بولے گا، مرغ کہنے لگا فکر نہ کر کل ہمارے آقا کا غلام بیمار پڑے گا اور رات کو مر جائے گا۔ اس کے رشتہ دار اس کے مرنے پر کتوں اور مانگنے والوں کو روٹیاں دیں گے۔ تجھے بھی کچھ کھانے کو مل ہی جائے گا۔ جب اس شخص نے یہ سنا تو اسی وقت غلام کو فروخت کر ڈالا اور نقصان سے بچ گیا دل میں بڑا خوش ہوتا تھا اور اٹھکیلیاں کرتا تھا کہ میں تھوڑے ہی دنوں میں تین بڑے بڑے نقصانات سے بچ گیا۔ جب سے میں نے جانوروں کی بولیاں سیکھی ہیں مجھے تو فائدہ ہو رہا ہے۔

جب اگلا دن آیا تو کتے نے پھر مرغ سے کہا، اے بکواسی مرغ! تیرے پاس جھوٹ کے علاوہ بھی کوئی بات ہے؟ مرغ کہنے لگا، جھوٹ بولنا ہماری خصلت میں نہیں ہے ہم مرغ تو مؤذن کی طرح سچ بولنے والے ہیں۔ ہمارے آقا کا غلام مر تو گیا۔ لیکن خریدار کے پاس جا کر مرا اور نقصان کا خریدار ہوا۔ لیکن ہمارا آقا ہے بڑا بے وقوف جو اپنی بلا دوسروں کے سر ڈال رہا ہے۔ اس نے گھوڑا فروخت کر دیا اور وہ گھوڑا خریدار کے پاس جا کر مر گیا۔ پھر اس نے خچر کو بھی بیچ دیا اور وہ بھی خریدار کے گھر جا کر مر گیا۔ اس طرح اس نے اپنا مال بچا لیا۔ حالانکہ ایک نقصان بہت سے نقصانات کا دفیعہ ہوتا ہے۔ اگر آقا کا گھوڑا اور خچر اسی گھر میں مرتے تو ہمارے آقا کی جان کا فدیہ ہوتے۔ کیونکہ مال اگر انسان کی جان پر قربان ہو جائے تو وہ نقصان نہیں ہے۔ بلکہ نفع ہی نفع ہے۔ لیکن ہمارے آقا نے اپنی جان پر بلا ڈال کر اپنے مال کو بچایا ہے اور سخت گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ اب میں تمہیں ایک اور سچی بات بتاتا ہوں کہ کل کو یقیناً ہمارا آقا خود مر جائے گا اور اس کے غم میں جو لوگ اکٹھے ہوں گے گھر والے ان کے لیے گائے ذبح کریں گے اور طرح طرح کے لذیذ کھانے پکائیں گے۔ اس میں تمہیں بھی بہت کچھ مل جائے گا۔

اس شخص نے جب یہ سنا تو انتہائی تیزی سے دوڑتا ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا۔ خوف کی وجہ سے اس کے چہرے کی رنگت اڑی ہوئی تھی۔ کہنے لگا، اے اللہ کے پیغمبر! میری مدد فرمائیں۔ بے شک مجھ سے غلطی ہو گئی جو میں نے جانوروں کی بولیاں سیکھنے پر اصرار کیا میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔ مجھے موت کے منہ میں جانے سے بچا لیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس شخص کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا، اے بے وقوف! اب یہ بات بڑی دشوار ہے کیونکہ آئی ہوئی قضا ٹل نہیں سکتی۔ مٰیں نے تو اس قضا کو اسی دن دیکھ لیا تھا جو تجھ پر آج ظاہر ہوئی ہے۔ لہٰذا اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ تمہاری موت واقع ہونا اٹل ہے۔ چنانچہ اگلے دن اس شخص کا انتقال ہو گیا۔

(حکایاتِ رومی سے ماخذ)


2 comments: