Sunday 20 January 2019

ڈوری سے بندھا شاہین


کراچی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے نکلتے ہوئے میری نظر گیٹ پر بیٹھے ایک مفلوک الٖحال سے شخص پر پڑی اس نے اپنے ہاتھ پر ایک شاہین بٹھایا ہوا تھا اور اس شاہین کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا کہ اقبال کے پیروکار ہیں شاہین کا ذکر بہت سنا ہے۔ کیوں نہ آج قریب سے دیکھ لیں چناچہ میں اس شخص کے پاس گیا۔ میں نے دیکھا کہ اس شخص نے مضبوط ڈوری کے ایک سرے سے شاہین کی ٹانگیں باندھی ہوئی تھیں اور دوسرا سرا اپنے ہاتھ کے گرد لپیٹا ہوا تھا۔ علاوہ ازیں اس نے اپنے ہاتھوں پر چمڑے کے دستانے پہنے ہوئے تھے اورشاہین کے کاٹنے کی وجہ سے یہ دستانے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے۔ شاہین کی آنکھوں پر چمڑے کی "عینک" تھی جس کی وجہ سے وہ دیکھ نہیں سکتا تھا مگر وہ مضطرب انداز میں اپنی گردن اِدھر اُدھر گھما رہا تھا میں نے اس شخص سے پوچھا "یہ شاہین بکنے کے لیے ہے؟"

"ہاں جی بکاؤ مال ہے" اس نے کہا۔

مگر میں نے محسوس کیا کہ اس کے لہجے میں خاصی بے اعتنائی ہے۔ اسے اس امر سے کوئی دلچسپی نہیں کہ میں نے یہ سوال شاہین خریدنے کے لیے کیا ہے یا محض وقت گزاری کر رہا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد یوں ایڑیوں کے بل بیٹھے ہوئے اس شخص نے گردن موڑ کر ہوٹل کی لابی کی طرف نظر دوڑائی اور اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے اس شخص سے کہا "ابھی تک آیا نہیں!"


"آ جائے گا!" اس کے ساتھی نے اطمینان سے جواب دیا۔

"کیوں میاں اس کا کیا لوگے؟" میں نے اپنے ذوقِ تجسس کی تسکین کے لیے پوچھا۔

"ستر ہزار روپے" اس نے میری طرف دیکھے بغیر کہا اور اس کی نظریں لابی کی طرف تھیں۔

"ستر ہزار روپے؟" حیرت سے میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

"ہاں جی! ابھی یہ بچہ جو ہے تبھی تو قیمت کم ہے!" اس نے کہا۔

"ابھی آیا نہیں" اس نے ایک بار پھر ایڑیاں اٹھا اٹھا کر لابی کے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"آ جائے گا یار آ جائے گا کہیں نہیں جاتا" اس کے ساتھی نے یقین سے کہا۔

"تم کس کا انتظار کر رہے ہو؟" میں نے پوچھا۔

"ایک گاہک کا انتظار ہے"

"اگر ستر ہزار مانگو گے تو قیامت تک اس کا انتظار ہی کرتے رہو گے!" میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

"پچاس ہزار روپے مول تو وہ لگا گیا ہے۔ میں نے اسے اسی ہزار قیمت بتائی ہے۔ ستر تک بیچ دوں گا!" اسے میرے فقرے ہونے کا غالباً یقین تھا تبھی اس نے مجھ سے کاروباری پردہ داری ترک کردی تھی!

"مگر وہ کون احمق ہے جو ایک پرندے کے تمہیں ستر ہزار روپے دے گا"

"وہ احمق نہیں ہے ایک عرب شخص ہے ہمارے شاہینوں کے بڑے اچھے گاہک ہیں!"

مجھے یہ سن کر چپ سی لگ گئی۔

تھوڑی دیر بعد میں نے خود کو سنبھالا اور پوچھا "اچھا یار ایک بات تو بتاؤ تم نے شاہین کی آنکھوں پر پٹی کیوں باندھی ہوئی ہے؟

"اس کی آنکھیں کھلی ہوں تو یہ اپنی نوکیلی چونچ بار بار ہاتھوں میں گاڑ دیتا ہے اور بوٹی نکال کر لے جاتا ہے۔ ابھی نا سمجھ ہے آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گا!"

مگر میرے ذہن میں ابھی تک شاہین کی قیمت پھنسی ہوئی تھی۔ چناچہ میں ایک دفعہ پھر واپس اپنے موضوع کی طرف آیا "ایک پرندے کے ستر ہزار بہت زیادہ ہیں اس میں ایسی کون سی خاصیت ہے بالکل چیل کی طرح تو ہے وہی آنکھیں وہی نوکیلے پنجے وہی چونچ"۔ مگر پھر مجھے خود ہی ایک دوست کی بات یاد آگئی کہ چیل اور شاہین میں فرق صرف یہ ہے کہ چیل اپنے شکار پر جھپٹتی شاہین ہی کی طرح ہے بس اتنا ہے کہ شکار کے قریب پہنچ کر اس کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے اور یہی بے موقع ہنسی شاہین اور چیل میں امتیاز کا باعث بنتی ہے۔

"چیل اور شاہین میں بہت فرق ہے جناب!" اس نے ہنستے ہوئے کہا مجھے اس کی یہ ہنسی چیل کی طرح بے موقع لگی۔ "شاہین کی اڑان اور اس کی دیگر خصوصیات سے تو آپ واقف ہی ہیں لیکن جو شاہین ہم بیچتے ہیں وہ سدھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ شاہین جو اس وقت میرے ہاتھ پر بیٹھا ہے بلا کا شکاری ہے۔ یہ بٹیر، تیتر، مرغابی اور دوسرے پرندوں کا پیچھا کرتا ہے اور انہیں زندہ اپنے پنجوں میں دبا کر اپنے مالک کے قدموں میں ڈھیر کر دیتا ہے چناچہ اس شاہین کے قدر دان بہت ہیں"۔

"یہ شاہین پرندے کو شکار کر کے خود کیوں نہیں کھاتا؟" میں نے پوچھا۔

"میں نے آپ کو بتایا کہ یہ سدھایا ہوا شاہین ہے"

"دوسرے لفظوں میں یہ ملازمت پیشہ شاہین ہے" میں نے ہنستے ہوئے کہا

"جی جی" اس نے اپنے میلے میلے دانت نکالتے ہوئے کہا "ویسے بھی جب اسے شکار پر چھوڑا جاتا ہے گوشت کا ایک ٹکڑا اس کی ٹانگوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے تاکہ اسے تسلی رہے"۔

"اگر برا نہ مانو تو آخر میں آپ سے ایک بات پوچھوں؟" میں نے کہا "پوچھو جناب پوچھو!"

"تم اتنا مہنگا کاروبار کرتے ہو مگر تمہاری اپنی حالت کچھ اتنی اچھی نہیں ہے؟"

"بابوجی! آپ بھی بھولے باشاہ ہیں اس شاہین کا مالک تھوڑے ہی ہوں۔ میں تو اسے کمیشن پر بیچ رہا ہوں شاہین اگر بک جائے تو اس کا کمیشن میں ہمارا حصہ بھی ہوتا ہے"۔

شاہینوں کے کمیشن ایجنٹ نے ایک بار پھر لابی کی طرف ایڑیاں اٹھا کر دیکھا!

اس دوران کھڑے کھڑے میری طبیعت متلانے لگی تھی۔ میں نے باہر سڑک پر نظر دوڑائی تو انسانوں کا ایک سیلاب اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں تھا۔ ان میں طالب علم بھی تھے استاد بھی صحافی بھی تھے، صنعت کار بھی پولیس والے بھی تھے اور دوسرے محافظ اداروں کے افراد بھی، ان میں دانشور بھی تھے اور عالم بھی، سیاستدان بھی تھے اور اہل اقتدار بھی، ان میں مزدور بھی تھے اور کسان بھی اور ان لمحوں میں مجھے یوں لگا جیسے ان سب کی ٹانگوں میں گوشت کا ایک ایک ٹکڑا باندھ کر انہیں شکار پر چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ اس شکار کو اپنے پنجوں میں دبا کر اپنے آقا کے قدموں میں ڈھیر کرنے کے لیے گھروں سے نکلے ہیں۔ آنکھوں پر بندھی پٹی اور ٹانگوں میں بندھی رسی والا شاہین مضطرب انداز میں اپنی گردن اِدھر اُدھر گھما رہا تھا۔ میں نے اس شاہین کو ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور کہا:

تُو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

اتنے میں شاہین بیچنے والے شخص کے چہرے پر رونق سی آگئی "وہ عرب شیخ آ گیا ہے دعا کریں بابو جی سودا ہو جائے!"

(عطایئے سے ماخذ)



1 comment: