وہ بچے جو خصوصی توجہ کے طالب ہوتے ہیں اسپیشل کہلاتے ہیں۔ ان بچوں کو ہر لحاظ سے خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی حسیات عام بچوں کے مقابلے میں قدرے تیز ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ عام بچوں کے مقابلے میں حساس ہوتے ہیں۔ ایسے والدین کے لیے وہ لمحہ بڑا کرب انگیز ہوتا ہے جب ان کے علم میں یہ بات آتی ہے کہ ان کا بچہ اسپیشل ہے۔ اسی لمحے ان والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ سورج ڈوب کر دوبارہ ابھرے اور یہ اس لمحے کا حصہ بن جائیں لکین حقیقت بہرحال وجود رکھتی ہے۔
جسمِ انسانی کا تمام تر انحصار اس کے دماغ پر ہوتا ہے۔ خون کی رگوں کے ساتھ ساتھ اعصاب جسم میں احکامات لے کر آتے ہیں اور جسمانی اعضاء ان احکامات کی تعمیل کرتے ہیں۔ کسی گرم چیز کو چھوتے ہی آپ اپنا ہاتھ فوری طور پر واپس کھینچ لیتے ہیں، ہاتھ کھینچنے کا یہ حکم دماغ جاری کرتا ہے جو اعصابی جال کے ذریعے لمحے کے ہزارویں حصے میں آپ کے ہاتھ تک جا پہنچتا ہے اور آپ اس حکم کی بجا آوری کرتے ہیں۔ بعض حالات میں بچے کا ذہن مکمل طور پر نشوونما نہیں پاتا اور پسماندہ رہ جاتا ہے، ایسے بچے اسپیشل یا ذہنی معذور کہلاتے ہیں۔
اسپیشل بچوں کی پیدائش کی وجہ:
اسپیشل بچے کیوں پیدا ہوتے ہیں۔۔۔۔۔؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ اچھے خاصے تندرست ماں باپ کے ہاں نارمل بچوں کے ساتھ ساتھ اسپیشل بچے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ ماہرین بھی حتمی طور پر اس کی وجہ بتانے سے قاصر ہیں۔ میڈیکل سائنس اس کی بہت ساری وجوہات بیان کرتی ہے لیکن کوئی حتمی اور یقینی وجہ سامنے نہیں آئی۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ کثرتِ اولاد اس کی وجہ ہوسکتی ہے۔ ایسی مائیں چونکہ خود صحت کے لحاظ سے بے حد کمزور ہو جاتی ہیں لہٰذا پیدا ہونے والا بچہ بھی بہت سی مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ ماں سے مکمل توانائی اور صحت حاصل نہ کر سکنے کے باعث یہ بچے ذہنی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دورانِ حمل خواتین کو عام دنوں سے کہیں زیادہ احتیاط اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے، کسی بھی قسم کا نفسیاتی دباؤ یا پریشانی بچے کی حالت کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے حاملہ خواتین کو ذہنی اور جسمانی طور پر مکمل سکون اور اطمینان فراہم کرنا اس کے شوہر اور اہلِ خانہ کی ذمہ داری ہے۔ دورانِِ حمل ماں کو لگنے والے حفاظتی ٹیکے بھی بچے کو معذوری سے محفوظ رکھتے ہیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ خاندان میں رشتہ کرنے کی وجہ سے بھی ذہنی معذور بچے پیدا ہو سکتے ہیں۔ ماں باپ کے خون کا غلط ملاپ بھی بچوں میں معذوری کا باعث بنتا ہے۔والدین کا رویہ:
یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ ایسے بچوں کے ماں باپ ذہنی اذیت اور سخت پریشانی کا شکار رہتے ہیں اور اپنی اولاد کو ایسی معذوری اور مجبوری کی حالت میں دیکھ کر ان کا دل خون کا آنسو روتا ہے۔اگر خدانخواستہ کسی کے بچے کا شمار بھی اسپیشل بچوں میں کیا جانے لگا ہے تو اس وقت اس کو سنبھلنے کی ضرورت ہے، خود کو اس حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرے، اس وقت وہ جتنی جلد خود کو سنبھال لے، اتنا ہی بہتر ہے۔
اسپیشل بچوں کے والدین اپنے اندر حوصلہ پیدا کریں:
زندگی ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی، اگر والدین اپنے مسائل کا جائزہ لیں اور اس کے مطابق اپنے اعصاب کو بھی مضبوط کر لیں تو اسپیشل بچے کے والدین کی حیثیت سے اس بچے کی پرورش کی مشکلات کا مقابلہ نسبتاً آسانی سے ہو سکے گا۔ گھر کی جانب سے ہمت افزائی سے آپ اس چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اسپیشل بچوں کے والدین کو چاہیے کہ وقتاً فوقتاً اسپیشل بچوں کے ماہر اساتذہ اور والدین سے ملاقات کرتے رہیں، اس سے نہ صرف یہ کہ ان کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہو سکے گا بلکہ ان سے مفید و کارآمد مشورے بھی مل جائیں گے جو روزمرہ مشکلات کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک دشوار گزار راستہ ہے لہٰذا اس راستے پر چلنے کی مشکلات سے آگاہ رہنا چاہیے اور کسی بھی مرحلے پر گھبرانے کی ضرورت نہیں، اپنے مقصد پر نگاہ رکھیں، لوگوں سے مشورے لیں، اس طرح اپنی زندگی میں درپیش چیلنج کا سامنا کرنے اور مقابلہ کرنے کی ہمت خود میں پیدا کر لیں گے۔اسپیشل بچوں کے مسائل اور والدین کا کردار:
والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ذہنی نشوونما الگ بات ہے اور جسمانی نشوونما الگ، اس لیے محض جسمانی نشوونما دیکھ کر یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ بچہ ذہنی طور پر بھی نمو پا رہا ہے۔ ذہنی طور پر پس ماندہ بچوں سے مراد وہ لڑکے اور لڑکیاں ہیں جو پس ماندہ ذہن لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی یہ ذہنی پس ماندگی مستقل ہوتی ہے۔ ان کی دماغی صلاحیت محدود ہوتی ہے، لیکن شکل سے وہ صحت مند دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا مکمل علاج نہیں ہو سکتا، مگر تربیت اور تعلیم سے ان کی حالت کو قدرے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ذہنی طور پر معذور بچوں کے والدین کو اکثر ان کے مسائل اور احساسات و جذبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذہنی پسماندہ لڑکی کا اصل مسئلہ پہلی بار اس وقت سامنے آتا ہے جب وہ بالغ ہو جاتی ہے۔ اسے گھر میں اور دوسرے لوگوں کے سامنے شرم و حیا کے سماجی آداب سکھانا بڑا مشکل کام ہے۔ اسے صحت و صفائی اور اس سلسلے میں دوسرے اقدامات کا شعور سکھانا کوئی آسان بات نہیں۔ ایسی بچیاں مخصوص دنوں میں اکثر بہت پریشان رہتی ہیں۔ اس عمر میں جو طبعی تبدیلیاں ہوتی ہیں ان سے ان میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔جن بچیوں کی ذہنی پس ماندگی معمولی درجے کی ہوتی ہے، یہ عام طور پر نارمل دکھائی دیتی ہیں۔ وہ شادی کر کے نارمل زندگی بھی گزار سکتی ہیں۔
پس ماندہ لڑکوں کے مسائل مختلف ہیں۔ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لڑکے جسمانی طور پر طاقتور جسم کے مالک ہوتے ہیں، لیکن ذہنی طور پر بہت پسماندہ ہوتے ہیں۔ معمولی ذہنی معذوری رکھنے والے زیادہ ترلڑکے نارمل ہی دکھائی دیتے ہیں اور وہ شادی بھی کر سکتے ہیں۔ تاہم ان میں اکثر اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ اکثر سمجھ دار والدین اور خاندان کے افراد ایسے مسائل سے پہلے سے آگاہ ہوتے ہیں اور خاندانی معالج سے مشورہ کرتے رہتے ہیں۔
خصوصی تعلیم:
خصوصی تعلیم سے مراد تعلیم دینے کا ایسا طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ذہنی پسماندہ، نابینا، سماعت سے محروم اور جسمانی طور پر معذور بچوں کو خاص قسم سے ٹیچنگ تکنیک، خصوصی اور جدید نصاب کے ذریعے ان بچوں کی تعلیمی، سماجی اور جذباتی نشوونما ہو سکے۔ تاکہ ایسے بچے بھی اپنے اندر اعتماد پیدا کر سکیں۔ اور معاشرے کے فعال رکن بن کر اپنی زندگی گزاریں نہ کہ دوسرے پر بوجھ بنیں۔خصوصی تعلیم میں کچھ خاص طریقۂ کار استعمال کیے جاتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی جس چیز کی سب سے زیادہ اہمیت ہے وہ ہے والدین کا مناسب رویہ اور بچے کے بارے میں ان کا اندازِ فکر۔۔۔۔۔ ہمارے معاشرے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پہلے والدین کو اس بات کی تعلیم دی جائے کہ یہ بچہ ان کے لیے بوجھ نہیں۔ بس اسے صرف تھوڑی سی زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اورجو والدین تھوڑی سے زیادہ کوشش کر لیتے ہیں ان کا بچہ خصوصی تعلیم سے بھرپور فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ جس سے ذہنی معذوری کی وقوفی نشوونما بہتر طرز پر اور جلد ہوتی ہے۔ اس بات سے ظاہر ہوا کہ خصوصی تعلیم کی ایک اہم ضرورت والدین کی معاونت ہے۔ کچھ ماہرین نفسیات کے مطابق والدین اور ماہرین کے درمیان ایک تعلیمی رابطہ قائم ہونا چاہیے۔ جس کو وہ Partnership with Parents کا نام دیتے ہیں۔ اس پارٹنرشپ میں والدین اور ماہرین اپنے علم اپنی مہارتوں اور تجربوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ تاکہ خصوصی بچے کی شخصیت کی نشوونما میں مددگار ثابت ہو۔
ماہرین نفسیات کے نزدیک ذہنی پس ماندگی کے لیے ہمارے معاشرے میں کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے اور ان ماہرین نفسیات کے مطابق ذہنی پسماندگی تین زمروں میں آتی ہے۔ اول وہ لوگ جن کی اگر مناسب مدد کی جائے تو تھوڑا بہت پڑھ کر ہنر مند بن سکتے ہیں۔ دوئم وہ جو تعلیم توحاصل نہیں کر سکتے مگر زیرنگرانی کام سیکھ اور کر سکتے ہیں۔ سوئم وہ جو اس قدر پس ماندہ ہوتے ہیں کہ ان کی دیکھ بھال کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ بعض ممالک میں جہاں ملکی اور معاشی حالات اجازت دیتے ہیں ایسے مریضوں کے لیے علیحدہ بندوبست ہے۔ کیونکہ انہیں تھیک کرنے کے لیے کوئی دوا ایجاد نہیں ہوتی۔ اسی لیے ان کی دیکھ بھال محکمۂ تعلیم اور سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے جو حسبِ ضرورت محکمہ صحت سے رابطہ رکھتے ہیں۔ اگر کسی کو مسلسل یہ احساس دلایا جائے کہ وہ پاگل ہے تو اس پر نفسیاتی دباؤ بھی بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا ہماری اور تمام معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسے بچوں کا خیال رکھیں اور ان میں یہ خیال پروان چڑھائیں کہ وہ بھی ملک کے فعال اور مفید شہری ہیں۔
No comments:
Post a Comment