Thursday, 31 January 2019

خاموشی


اگر مومن کوئی بات کرے تو اس کو چاہیے کہ تھوڑی کہے اور جو بیان کرے برہان قاطع سے بیان کرے۔

حضرت امیر المومنین ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے منہ میں پتھر کا ٹکڑا رکھتے تھے۔ اس واسطے کہ جھوٹی بات منہ سے نہ نکل جائے۔ جب نماز پڑھتے تھے اس وقت پتھر کو منہ سے نکال لیتے تھے اور جب نماز سے فارغ ہوتے پھرمنہ میں رکھ لیتے۔ اور فرماتے کہ مبادا میری زبان سے کوئی لغو نہ نکل جائے اور مجھ کو قیامت کے دن اس کا جواب دینا پڑے۔ اور جو کوئی بہت باتیں کرتا ہے اکثر لغو اور غلط کلام اس کے منہ سے نکلتا ہے وہ بے شرم ہو جاتا ہے اور اس کا دل مر جاتا ہے۔

کہا گیا ہے کہ خاموشی میں تین ہزار سات نیکیاں ہیں۔ اور وہ سات باتوں پر منحصر ہیں۔ اور ان سات باتوں میں سات ہزار نیکیاں ہیں۔ اول خاموشی ایسی عبادت ہے کہ بغیر محنت کے ہو جاتی ہے۔ دوسرا خاموشی بغیر آرائش کے زینت ہے۔ تیسرا خاموشی بغیر بادشاہی کے ہیبت ہے۔ چوتھا خاموشی بغیر نگاہ باتوں سے قلعہ ہے۔ پانچواں خاموشی بغیر کسی احسان کے دولت مندی ہے۔ چھٹا خاموشی کراماً کاتبین کے لیے خوشی ہے۔ ساتواں خاموشی عیبوں کا پردہ ہے۔ تین عادتیں مومنین کی علامت ہیں۔ اول دل کو معرفت الہٰی کے ساتھ آراستہ رکھنا۔ دوم دل کو تکبر اور حسد اور خیانت سے دور رکھنا۔ سوم نفس کو گناہ سے بچانا اور کسی مسلمان کو نہ ستانا۔ جو وعدہ کرے، اس کا ایفا کرنا۔ جو کوئی زبان کا وعدہ وفا نہ کرے کاذب شمار ہوتا ہے اور جھوٹا آدمی خدا کا دشمن ہو جاتا ہے۔ (معاذ اللہ)


سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص نے بلبل کو پکڑ کر پنجرہ میں رکھا ہوا تھا۔ وہ بلبل خوش آوازی سے بولا کرتی تھی۔ اتفاقاً اس بلبل کے پاس ایک اور بلبل آئی اور کہا کہ اے میری ہمشیرہ! میں یہ ملک چھوڑ کر دوسرے ملک کو جاتی ہوں۔ تُو بھی میرے ساتھ چل۔ تاکہ ہم دونوں وہاں کی زیارات کو چلیں اور وہاں کی سیر کریں۔ اس بلبل نے کہا کہ میں کس طرح چلوں! کیونکہ میں قید خانہ میں ہوں۔ دوسرے بلبل نے کہا کہ تُو قید میں اپنے بولنے کے سبب سے ہے اگر تُو چاہتی ہے کہ اس قید سے رہائی پائے تو چند روز اپنی زبان روک لے اور آواز مت نکال اور خاموشی اختیار کر کہ اس طرح تُو خلاصی پائے گی۔

القصہ اس بلبل نے مدت تک آواز نہ نکالی۔ اس کا مالک حضرت سلیمان علیہ السلام کے حضور پیش ہوا اورعرض کی کہ اے پیغمبر خدا! بہت مدت سے یہ بلبل بولتی نہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے گوشہ میں جا کر بلبل سے دریافت کیا کہ تُو کیوں نہیں بولتی! کہ تیری آواز انسانوں کے دل کی راحت ہے۔ بلبل نے کہا اے خدا کے رسول! ایک دوست نے مجھے وصیت کی ہے کہ اگر تُو چاہتی ہے کہ اس قید سے خلاصی مل جائے تو چپ رہو اور آواز مت نکالو۔

سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ اے مردِ خدا! اس کو چھوڑ دے اگر ہزار سال تک اس کو پنجرہ میں رکھے گا تو بھی یہ آواز نہیں نکالے گی۔ آخر اس مرد نے بلبل کو چھوڑ دیا اور وہ بلبل خلاصی پا کر اڑ گئی۔

روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھ کو کوئی نصیحت فرمائیے۔

جنابِ رسول ﷺ نے ان کی زبان کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا "زبان کو نگاہ رکھ"۔

پھر معاذ رضی اللہ تعالیٰ نے عرض کیا کہ مجھ کو نصیحت فرمائیے۔

رسول ﷺ نے فرمایا: "معاذ! کوئی شخص دوزخ میں نہ جائے گا مگر زبان کے سبب سے، کیونکہ جھوٹ بولنا اور گِلہ کرنا اور سخن چینی اور بہتان لگانا سب زبان سے متعلق ہے"۔

جو کوئی زبان کو نگاہ میں رکھے دوزخ سے نجات پائے گا اور قیامت کو دنیا میں تمام عبادتوں سے بڑھ کر زبان کا روکنا ہے۔



سوال کا جواب اسپیشل بچے ڈوری سے بندھا شاہین
سوال کا جواب اسپیشل بچے ڈوری سے بندھا شاہین

Monday, 28 January 2019

سوال کا جواب


ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا، اے اللہ! تو انسانوں کو پیدا کرتا ہے اور پھر مار دیتا ہے اس میں کیا حکمت ہے؟ بارگاہِ خداوندی سے جواب آیا اے موسیٰ! چونکہ میں جانتا ہوں کہ تیرا یہ سوال انکار اور غفلت کی وجہ سے نہیں ہے اس لیے میں درگزر کرتا ہوں ورنہ تجھے سزا دیتا اور غصہ کرتا۔ تو اس لیے معلوم کرنا چاہتا ہے تاکہ عوام کو ہماری حکمتوں سے آگاہ کر دے ورنہ تجھے مخلوق کے پیدا کرنے میں ہماری حکمتیں معلوم ہیں۔ اے موسی! میں جانتا ہوں کہ تو ناواقفوں کو حکمتوں سے واقف کرنا چاہتا ہے۔


اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا، اے موسیٰ! تم کھیتی بو دو۔ چناچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے زمین میں بیج بو دیا اور پھر جب کھیتی تیار ہو گئی تو انہوں نے درانتی کے ساتھ کھیتی کو کاٹ ڈالا۔ غیب سے ارشادِ خداوندی ہوا، اے موسیٰ! تم نے خود کھیتی بوئی اور پھر اب اس کو کیوں کاٹ دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا، اے اللہ! کھیتی کے پکنے پر اس میں دانہ اور بھوسہ تھا اور دونوں کو ملا جلا دینا مناسب نہیں تھا۔ حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ دونوں کو الگ الگ کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ یہ عقل تم نے کہاں سے حاصل کی؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ یہ عقل و دانش آپ کی عطا کردہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارے سوال کا جواب یہ ہے کہ انسانوں کی روحیں دو قسم کی ہیں ایک پاک اور ایک ناپاک۔ سب انسانی جسم ایک رتبہ کے نہیں ہیں کسی جسم میں موتی جیسی روح ہے اور کسی جسم میں کنج کے پوتھ کی طرح ہے۔ چناچہ ان روحوں کو بھی اسی طرح ایک دوسرے سے علیحدہ کر دینا مناسب ہے جس طرح گندم کو بھوسے سے تاکہ نیک روحیں جنت میں چلی جائیں اور بری روحیں جہنم میں ۔ پہلی حکمت تو مارنے کی تھی پیدا کرنے کی حکمت یہ ہے کہ ہماری صفات کا اظہار ہو جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں پوشیدہ خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں لہٰذا میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔ اس واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں مومن کی بھلائی مضمر ہوتی ہے۔ مومن کی موت بھی مومن کے لیے راحت و مسرت کا پیغام ہوتی ہے اور اس کی دنیا میں آمد بھی خوشی و مسرت کا باعث بنتی ہے۔

(حکایاتِ رومی سے ماخذ)


اسپیشل بچے ڈوری سے بندھا شاہین حکمت
اسپیشل بچے ڈوری سے بندھا شاہین حکمت

Tuesday, 22 January 2019

اسپیشل بچے


وہ بچے جو خصوصی توجہ کے طالب ہوتے ہیں اسپیشل کہلاتے ہیں۔ ان بچوں کو ہر لحاظ سے خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی حسیات عام بچوں کے مقابلے میں قدرے تیز ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ عام بچوں کے مقابلے میں حساس ہوتے ہیں۔ ایسے والدین کے لیے وہ لمحہ بڑا کرب انگیز ہوتا ہے جب ان کے علم میں یہ بات آتی ہے کہ ان کا بچہ اسپیشل ہے۔ اسی لمحے ان والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ سورج ڈوب کر دوبارہ ابھرے اور یہ اس لمحے کا حصہ بن جائیں لکین حقیقت بہرحال وجود رکھتی ہے۔

جسمِ انسانی کا تمام تر انحصار اس کے دماغ پر ہوتا ہے۔ خون کی رگوں کے ساتھ ساتھ اعصاب جسم میں احکامات لے کر آتے ہیں اور جسمانی اعضاء ان احکامات کی تعمیل کرتے ہیں۔ کسی گرم چیز کو چھوتے ہی آپ اپنا ہاتھ فوری طور پر واپس کھینچ لیتے ہیں، ہاتھ کھینچنے کا یہ حکم دماغ جاری کرتا ہے جو اعصابی جال کے ذریعے لمحے کے ہزارویں حصے میں آپ کے ہاتھ تک جا پہنچتا ہے اور آپ اس حکم کی بجا آوری کرتے ہیں۔ بعض حالات میں بچے کا ذہن مکمل طور پر نشوونما نہیں پاتا اور پسماندہ رہ جاتا ہے، ایسے بچے اسپیشل یا ذہنی معذور کہلاتے ہیں۔

اسپیشل بچوں کی پیدائش کی وجہ:

اسپیشل بچے کیوں پیدا ہوتے ہیں۔۔۔۔۔؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ اچھے خاصے تندرست ماں باپ کے ہاں نارمل بچوں کے ساتھ ساتھ اسپیشل بچے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ ماہرین بھی حتمی طور پر اس کی وجہ بتانے سے قاصر ہیں۔ میڈیکل سائنس اس کی بہت ساری وجوہات بیان کرتی ہے لیکن کوئی حتمی اور یقینی وجہ سامنے نہیں آئی۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ کثرتِ اولاد اس کی وجہ ہوسکتی ہے۔ ایسی مائیں چونکہ خود صحت کے لحاظ سے بے حد کمزور ہو جاتی ہیں لہٰذا پیدا ہونے والا بچہ بھی بہت سی مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ ماں سے مکمل توانائی اور صحت حاصل نہ کر سکنے کے باعث یہ بچے ذہنی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دورانِ حمل خواتین کو عام دنوں سے کہیں زیادہ احتیاط اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے، کسی بھی قسم کا نفسیاتی دباؤ یا پریشانی بچے کی حالت کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے حاملہ خواتین کو ذہنی اور جسمانی طور پر مکمل سکون اور اطمینان فراہم کرنا اس کے شوہر اور اہلِ خانہ کی ذمہ داری ہے۔ دورانِِ حمل ماں کو لگنے والے حفاظتی ٹیکے بھی بچے کو معذوری سے محفوظ رکھتے ہیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ خاندان میں رشتہ کرنے کی وجہ سے بھی ذہنی معذور بچے پیدا ہو سکتے ہیں۔ ماں باپ کے خون کا غلط ملاپ بھی بچوں میں معذوری کا باعث بنتا ہے۔

والدین کا رویہ:

یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ ایسے بچوں کے ماں باپ ذہنی اذیت اور سخت پریشانی کا شکار رہتے ہیں اور اپنی اولاد کو ایسی معذوری اور مجبوری کی حالت میں دیکھ کر ان کا دل خون کا آنسو روتا ہے۔

اگر خدانخواستہ کسی کے بچے کا شمار بھی اسپیشل بچوں میں کیا جانے لگا ہے تو اس وقت اس کو سنبھلنے کی ضرورت ہے، خود کو اس حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرے، اس وقت وہ جتنی جلد خود کو سنبھال لے، اتنا ہی بہتر ہے۔

اسپیشل بچوں کے والدین اپنے اندر حوصلہ پیدا کریں:

زندگی ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی، اگر والدین اپنے مسائل کا جائزہ لیں اور اس کے مطابق اپنے اعصاب کو بھی مضبوط کر لیں تو اسپیشل بچے کے والدین کی حیثیت سے اس بچے کی پرورش کی مشکلات کا مقابلہ نسبتاً آسانی سے ہو سکے گا۔ گھر کی جانب سے ہمت افزائی سے آپ اس چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اسپیشل بچوں کے والدین کو چاہیے کہ وقتاً فوقتاً اسپیشل بچوں کے ماہر اساتذہ اور والدین سے ملاقات کرتے رہیں، اس سے نہ صرف یہ کہ ان کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہو سکے گا بلکہ ان سے مفید و کارآمد مشورے بھی مل جائیں گے جو روزمرہ مشکلات کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک دشوار گزار راستہ ہے لہٰذا اس راستے پر چلنے کی مشکلات سے آگاہ رہنا چاہیے اور کسی بھی مرحلے پر گھبرانے کی ضرورت نہیں، اپنے مقصد پر نگاہ رکھیں، لوگوں سے مشورے لیں، اس طرح اپنی زندگی میں درپیش چیلنج کا سامنا کرنے اور مقابلہ کرنے کی ہمت خود میں پیدا کر لیں گے۔

اسپیشل بچوں کے مسائل اور والدین کا کردار:

والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ذہنی نشوونما الگ بات ہے اور جسمانی نشوونما الگ، اس لیے محض جسمانی نشوونما دیکھ کر یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ بچہ ذہنی طور پر بھی  نمو پا رہا ہے۔ ذہنی طور پر پس ماندہ بچوں سے مراد وہ لڑکے اور لڑکیاں ہیں جو پس ماندہ ذہن لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی یہ ذہنی پس ماندگی مستقل ہوتی ہے۔ ان کی دماغی صلاحیت محدود ہوتی ہے، لیکن شکل سے وہ صحت مند دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا مکمل علاج نہیں ہو سکتا، مگر تربیت اور تعلیم سے ان کی حالت کو قدرے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ذہنی طور پر معذور بچوں کے والدین کو اکثر ان کے مسائل اور احساسات و جذبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذہنی پسماندہ لڑکی کا اصل مسئلہ پہلی بار اس وقت سامنے آتا ہے جب وہ بالغ ہو جاتی ہے۔ اسے گھر میں اور دوسرے لوگوں کے سامنے شرم و حیا کے سماجی آداب سکھانا بڑا مشکل کام ہے۔ اسے صحت و صفائی اور اس سلسلے میں دوسرے اقدامات کا شعور سکھانا کوئی آسان بات نہیں۔ ایسی بچیاں مخصوص دنوں میں اکثر بہت پریشان رہتی ہیں۔ اس عمر میں جو طبعی تبدیلیاں ہوتی ہیں ان سے ان میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔

جن بچیوں کی ذہنی پس ماندگی معمولی درجے کی ہوتی ہے، یہ عام طور پر نارمل دکھائی دیتی ہیں۔ وہ شادی کر کے نارمل زندگی بھی گزار سکتی ہیں۔

پس ماندہ لڑکوں کے مسائل مختلف ہیں۔ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لڑکے جسمانی طور پر طاقتور جسم کے مالک ہوتے ہیں، لیکن ذہنی طور پر بہت پسماندہ ہوتے ہیں۔ معمولی ذہنی معذوری رکھنے والے زیادہ ترلڑکے نارمل ہی دکھائی دیتے ہیں اور وہ شادی بھی کر سکتے ہیں۔ تاہم ان میں اکثر اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ اکثر سمجھ دار والدین اور خاندان کے افراد ایسے مسائل سے پہلے سے آگاہ ہوتے ہیں اور خاندانی معالج سے مشورہ کرتے رہتے ہیں۔

خصوصی تعلیم:

خصوصی تعلیم سے مراد تعلیم دینے کا ایسا طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ذہنی پسماندہ، نابینا، سماعت سے محروم اور جسمانی طور پر معذور بچوں کو خاص قسم سے ٹیچنگ تکنیک، خصوصی اور جدید نصاب کے ذریعے ان بچوں کی تعلیمی، سماجی اور جذباتی نشوونما ہو سکے۔ تاکہ ایسے بچے بھی اپنے اندر اعتماد پیدا کر سکیں۔ اور معاشرے کے فعال رکن بن کر اپنی زندگی گزاریں نہ کہ دوسرے پر بوجھ بنیں۔

خصوصی تعلیم میں کچھ خاص طریقۂ کار استعمال کیے جاتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی جس چیز کی سب سے زیادہ اہمیت ہے وہ ہے والدین کا مناسب رویہ اور بچے کے بارے میں ان کا اندازِ فکر۔۔۔۔۔ ہمارے معاشرے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پہلے والدین کو اس بات کی تعلیم دی جائے کہ یہ بچہ ان کے لیے بوجھ نہیں۔ بس اسے صرف تھوڑی سی زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اورجو والدین تھوڑی سے زیادہ کوشش کر لیتے ہیں ان کا بچہ خصوصی تعلیم سے بھرپور فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ جس سے ذہنی معذوری کی وقوفی نشوونما بہتر طرز پر اور جلد ہوتی ہے۔ اس بات سے ظاہر ہوا کہ خصوصی تعلیم کی ایک اہم ضرورت والدین کی معاونت ہے۔ کچھ ماہرین نفسیات کے مطابق والدین اور ماہرین کے درمیان ایک تعلیمی رابطہ قائم ہونا چاہیے۔ جس کو وہ Partnership with Parents کا نام دیتے ہیں۔ اس پارٹنرشپ میں والدین اور ماہرین اپنے علم اپنی مہارتوں اور تجربوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ تاکہ خصوصی بچے کی شخصیت کی نشوونما میں مددگار ثابت ہو۔

ماہرین نفسیات کے نزدیک ذہنی پس ماندگی کے لیے ہمارے معاشرے میں کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے اور ان ماہرین نفسیات کے مطابق ذہنی پسماندگی تین زمروں میں آتی ہے۔ اول وہ لوگ جن کی اگر مناسب مدد کی جائے تو تھوڑا بہت پڑھ کر ہنر مند بن سکتے ہیں۔ دوئم وہ جو تعلیم توحاصل نہیں کر سکتے مگر زیرنگرانی کام سیکھ اور کر سکتے ہیں۔ سوئم وہ جو اس قدر پس ماندہ ہوتے ہیں کہ ان کی دیکھ بھال کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ بعض ممالک میں جہاں ملکی اور معاشی حالات اجازت دیتے ہیں ایسے مریضوں کے لیے علیحدہ بندوبست ہے۔ کیونکہ انہیں تھیک کرنے کے لیے کوئی دوا ایجاد نہیں ہوتی۔ اسی لیے ان کی دیکھ بھال محکمۂ تعلیم اور سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے جو حسبِ ضرورت محکمہ صحت سے رابطہ رکھتے ہیں۔ اگر کسی کو مسلسل یہ احساس دلایا جائے کہ وہ پاگل ہے تو اس پر نفسیاتی دباؤ بھی بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا ہماری اور تمام معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے  کہ ایسے بچوں کا خیال رکھیں اور ان میں یہ خیال پروان چڑھائیں کہ وہ بھی ملک کے فعال اور مفید شہری ہیں۔


Sunday, 20 January 2019

ڈوری سے بندھا شاہین


کراچی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے نکلتے ہوئے میری نظر گیٹ پر بیٹھے ایک مفلوک الٖحال سے شخص پر پڑی اس نے اپنے ہاتھ پر ایک شاہین بٹھایا ہوا تھا اور اس شاہین کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا کہ اقبال کے پیروکار ہیں شاہین کا ذکر بہت سنا ہے۔ کیوں نہ آج قریب سے دیکھ لیں چناچہ میں اس شخص کے پاس گیا۔ میں نے دیکھا کہ اس شخص نے مضبوط ڈوری کے ایک سرے سے شاہین کی ٹانگیں باندھی ہوئی تھیں اور دوسرا سرا اپنے ہاتھ کے گرد لپیٹا ہوا تھا۔ علاوہ ازیں اس نے اپنے ہاتھوں پر چمڑے کے دستانے پہنے ہوئے تھے اورشاہین کے کاٹنے کی وجہ سے یہ دستانے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے۔ شاہین کی آنکھوں پر چمڑے کی "عینک" تھی جس کی وجہ سے وہ دیکھ نہیں سکتا تھا مگر وہ مضطرب انداز میں اپنی گردن اِدھر اُدھر گھما رہا تھا میں نے اس شخص سے پوچھا "یہ شاہین بکنے کے لیے ہے؟"

"ہاں جی بکاؤ مال ہے" اس نے کہا۔

مگر میں نے محسوس کیا کہ اس کے لہجے میں خاصی بے اعتنائی ہے۔ اسے اس امر سے کوئی دلچسپی نہیں کہ میں نے یہ سوال شاہین خریدنے کے لیے کیا ہے یا محض وقت گزاری کر رہا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد یوں ایڑیوں کے بل بیٹھے ہوئے اس شخص نے گردن موڑ کر ہوٹل کی لابی کی طرف نظر دوڑائی اور اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے اس شخص سے کہا "ابھی تک آیا نہیں!"


"آ جائے گا!" اس کے ساتھی نے اطمینان سے جواب دیا۔

"کیوں میاں اس کا کیا لوگے؟" میں نے اپنے ذوقِ تجسس کی تسکین کے لیے پوچھا۔

"ستر ہزار روپے" اس نے میری طرف دیکھے بغیر کہا اور اس کی نظریں لابی کی طرف تھیں۔

"ستر ہزار روپے؟" حیرت سے میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

"ہاں جی! ابھی یہ بچہ جو ہے تبھی تو قیمت کم ہے!" اس نے کہا۔

"ابھی آیا نہیں" اس نے ایک بار پھر ایڑیاں اٹھا اٹھا کر لابی کے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"آ جائے گا یار آ جائے گا کہیں نہیں جاتا" اس کے ساتھی نے یقین سے کہا۔

"تم کس کا انتظار کر رہے ہو؟" میں نے پوچھا۔

"ایک گاہک کا انتظار ہے"

"اگر ستر ہزار مانگو گے تو قیامت تک اس کا انتظار ہی کرتے رہو گے!" میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

"پچاس ہزار روپے مول تو وہ لگا گیا ہے۔ میں نے اسے اسی ہزار قیمت بتائی ہے۔ ستر تک بیچ دوں گا!" اسے میرے فقرے ہونے کا غالباً یقین تھا تبھی اس نے مجھ سے کاروباری پردہ داری ترک کردی تھی!

"مگر وہ کون احمق ہے جو ایک پرندے کے تمہیں ستر ہزار روپے دے گا"

"وہ احمق نہیں ہے ایک عرب شخص ہے ہمارے شاہینوں کے بڑے اچھے گاہک ہیں!"

مجھے یہ سن کر چپ سی لگ گئی۔

تھوڑی دیر بعد میں نے خود کو سنبھالا اور پوچھا "اچھا یار ایک بات تو بتاؤ تم نے شاہین کی آنکھوں پر پٹی کیوں باندھی ہوئی ہے؟

"اس کی آنکھیں کھلی ہوں تو یہ اپنی نوکیلی چونچ بار بار ہاتھوں میں گاڑ دیتا ہے اور بوٹی نکال کر لے جاتا ہے۔ ابھی نا سمجھ ہے آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گا!"

مگر میرے ذہن میں ابھی تک شاہین کی قیمت پھنسی ہوئی تھی۔ چناچہ میں ایک دفعہ پھر واپس اپنے موضوع کی طرف آیا "ایک پرندے کے ستر ہزار بہت زیادہ ہیں اس میں ایسی کون سی خاصیت ہے بالکل چیل کی طرح تو ہے وہی آنکھیں وہی نوکیلے پنجے وہی چونچ"۔ مگر پھر مجھے خود ہی ایک دوست کی بات یاد آگئی کہ چیل اور شاہین میں فرق صرف یہ ہے کہ چیل اپنے شکار پر جھپٹتی شاہین ہی کی طرح ہے بس اتنا ہے کہ شکار کے قریب پہنچ کر اس کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے اور یہی بے موقع ہنسی شاہین اور چیل میں امتیاز کا باعث بنتی ہے۔

"چیل اور شاہین میں بہت فرق ہے جناب!" اس نے ہنستے ہوئے کہا مجھے اس کی یہ ہنسی چیل کی طرح بے موقع لگی۔ "شاہین کی اڑان اور اس کی دیگر خصوصیات سے تو آپ واقف ہی ہیں لیکن جو شاہین ہم بیچتے ہیں وہ سدھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ شاہین جو اس وقت میرے ہاتھ پر بیٹھا ہے بلا کا شکاری ہے۔ یہ بٹیر، تیتر، مرغابی اور دوسرے پرندوں کا پیچھا کرتا ہے اور انہیں زندہ اپنے پنجوں میں دبا کر اپنے مالک کے قدموں میں ڈھیر کر دیتا ہے چناچہ اس شاہین کے قدر دان بہت ہیں"۔

"یہ شاہین پرندے کو شکار کر کے خود کیوں نہیں کھاتا؟" میں نے پوچھا۔

"میں نے آپ کو بتایا کہ یہ سدھایا ہوا شاہین ہے"

"دوسرے لفظوں میں یہ ملازمت پیشہ شاہین ہے" میں نے ہنستے ہوئے کہا

"جی جی" اس نے اپنے میلے میلے دانت نکالتے ہوئے کہا "ویسے بھی جب اسے شکار پر چھوڑا جاتا ہے گوشت کا ایک ٹکڑا اس کی ٹانگوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے تاکہ اسے تسلی رہے"۔

"اگر برا نہ مانو تو آخر میں آپ سے ایک بات پوچھوں؟" میں نے کہا "پوچھو جناب پوچھو!"

"تم اتنا مہنگا کاروبار کرتے ہو مگر تمہاری اپنی حالت کچھ اتنی اچھی نہیں ہے؟"

"بابوجی! آپ بھی بھولے باشاہ ہیں اس شاہین کا مالک تھوڑے ہی ہوں۔ میں تو اسے کمیشن پر بیچ رہا ہوں شاہین اگر بک جائے تو اس کا کمیشن میں ہمارا حصہ بھی ہوتا ہے"۔

شاہینوں کے کمیشن ایجنٹ نے ایک بار پھر لابی کی طرف ایڑیاں اٹھا کر دیکھا!

اس دوران کھڑے کھڑے میری طبیعت متلانے لگی تھی۔ میں نے باہر سڑک پر نظر دوڑائی تو انسانوں کا ایک سیلاب اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں تھا۔ ان میں طالب علم بھی تھے استاد بھی صحافی بھی تھے، صنعت کار بھی پولیس والے بھی تھے اور دوسرے محافظ اداروں کے افراد بھی، ان میں دانشور بھی تھے اور عالم بھی، سیاستدان بھی تھے اور اہل اقتدار بھی، ان میں مزدور بھی تھے اور کسان بھی اور ان لمحوں میں مجھے یوں لگا جیسے ان سب کی ٹانگوں میں گوشت کا ایک ایک ٹکڑا باندھ کر انہیں شکار پر چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ اس شکار کو اپنے پنجوں میں دبا کر اپنے آقا کے قدموں میں ڈھیر کرنے کے لیے گھروں سے نکلے ہیں۔ آنکھوں پر بندھی پٹی اور ٹانگوں میں بندھی رسی والا شاہین مضطرب انداز میں اپنی گردن اِدھر اُدھر گھما رہا تھا۔ میں نے اس شاہین کو ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور کہا:

تُو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

اتنے میں شاہین بیچنے والے شخص کے چہرے پر رونق سی آگئی "وہ عرب شیخ آ گیا ہے دعا کریں بابو جی سودا ہو جائے!"

(عطایئے سے ماخذ)



Wednesday, 16 January 2019

حکمت


ایک نوجوان نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کیا کہ اے اللہ کے پیغمبر! مجھے جانوروں کی زبان سکھا دیجئے۔ ہو سکتا ہے کہ میں حیوانات اور درندوں کی زبان سیکھ کر اللہ تعالیٰ کے دین میں کوئی عبرت حاصل کروں۔ کیونکہ میرے خیال میں انسانوں کی تمام باتیں تو دنیا داری کی ہیں۔ ہو سکتا ہے جانوروں کی باتوں کا کوئی اور معمول ہو اور آخرت کے بارے میں ہوں۔ مجھے یہ زبانیں سیکھنے کا بہت ہی شوق ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، اے بھولے انسان! شاید تجھے شیطان ملعون نے بہکایا ہے تیرا یہ شوق ٹھیک نہیں ہے۔ وہ نوجوان کہنے لگا، آپ اس وقت اللہ تعالیٰ کے نائب ہیں اگر آپ مجھے سکھا دیں آپ کا اس میں کیا نقصان ہے؟ جب اس نوجوان نے بے حد اصرار کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے رجوع کیا اور فرمایا، اے اللہ! اگر میں اس کو جانوروں کی زبانیں سکھا دوں تو یہ بات اس کے لیے نقصان دہ ہو گی اور اگر نہیں سکھاتا تو اس کا دل برا ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوا، اے موسیٰ! اس کو سکھا دو تا کہ اس کو پتہ چلے کہ ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے۔

چناچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو جانوروں کی زبانیں سکھا دیں۔ اس شخص نے اپنے گھر میں ایک کتا اور ایک مرغ پال رکھا تھا۔ ایک دن صبح کے وقت اس نے آزمائش کرنے کی خاطر مرغ اور کتے کی گفتگو سننے کا ارادہ کیا۔ اس کی خادمہ نے کھانا کھانے کے بعد دسترخوان کو جھاڑا اور اس میں سے روٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا زمین پر گرا۔ مرغ اور کتا دونوں اس روٹی کے ٹکڑے پر جھپٹے مگر مرغ اس کو اچک کر لے گیا۔ کتے نے مرغ سے کہا، اے ظالم! تو نے مجھ پر ظلم کیا تُو توگندم کا دانہ نہیں کھا سکتا یہ روٹی کا ٹکڑا جو کہ میری خوراک ہے اس کو بھی تو نے اچک کر کھا لیا ہے۔ یہ ٹکڑا مجھے کھا لینے دیتے تو تمہارا کیا جاتا اب پتہ نہیں مجھے کھانے کو کچھ ملے نہ ملے بھوک سے میرا برا حال ہوا جا رہا ہے۔


مرغ نے کتے کی یہ بات سنی تو کہنے لگا، چپ ہو جا غم نہ کر۔ اللہ تعالیٰ اس سے بہتر تجھے کھانے کو خوراک دے گا۔ کل ہمارے آقا کا گھوڑا مر جائے گا۔ تم پیٹ بھر کر اس کا گوشت کھا لینا۔ اس شخص نے جب یہ سنا تو اسی وقت گھوڑا بازار لے جا کر فروخت کر دیا وہ گھوڑا دوسرے دن مر گیا مگر یہ شخص نقصان نے بچ گیا۔ مرغ بے چارہ کتے کے سامنے شرمندہ ہوا۔ کتے نے مرغ سے شکایت کرتے ہوئے کہا، اے مرغ! تُو کس قدر چالاک اور چھوٹا ہے۔ وہ گھوڑا جس کے بارے میں تم نے کہا تھا کہ کل مرے گا اور تم اس کا گوشت جی بھر کر کھانا وہ کہاں ہے؟ مرغ بولا، میں جھوٹ نہیں کہتا تھا۔ ہمارے آقا نے اپنا گھوڑا دوسری جگہ فروخت کر دیا اور وہ وہاں جا کر مر گیا۔ اس طرح ہمارا آقا نقصان سے بچ گیا اور اس نے اپنی بلا دوسروں کے سر ڈال دی۔ لیکن کل ہمارے آقا کا خچر مرے گا اور تمہاری عید ہو جائے گی۔ پیٹ بھر کر خچر کا گوشت کھا لینا۔

اس شخص نے مرغ کی یہ بات سنی تو فوراً خچر کو بھی فروخت کر دیا اور اس طرح اس نقصان سے بھی بچ گیا۔ اگلے دن کتے نے مرغ سے شکوہ کرتے ہوئے کہا، اے جھوٹوں کے سردار! آخر تُو کب تک جھوٹ بولے گا، مرغ کہنے لگا فکر نہ کر کل ہمارے آقا کا غلام بیمار پڑے گا اور رات کو مر جائے گا۔ اس کے رشتہ دار اس کے مرنے پر کتوں اور مانگنے والوں کو روٹیاں دیں گے۔ تجھے بھی کچھ کھانے کو مل ہی جائے گا۔ جب اس شخص نے یہ سنا تو اسی وقت غلام کو فروخت کر ڈالا اور نقصان سے بچ گیا دل میں بڑا خوش ہوتا تھا اور اٹھکیلیاں کرتا تھا کہ میں تھوڑے ہی دنوں میں تین بڑے بڑے نقصانات سے بچ گیا۔ جب سے میں نے جانوروں کی بولیاں سیکھی ہیں مجھے تو فائدہ ہو رہا ہے۔

جب اگلا دن آیا تو کتے نے پھر مرغ سے کہا، اے بکواسی مرغ! تیرے پاس جھوٹ کے علاوہ بھی کوئی بات ہے؟ مرغ کہنے لگا، جھوٹ بولنا ہماری خصلت میں نہیں ہے ہم مرغ تو مؤذن کی طرح سچ بولنے والے ہیں۔ ہمارے آقا کا غلام مر تو گیا۔ لیکن خریدار کے پاس جا کر مرا اور نقصان کا خریدار ہوا۔ لیکن ہمارا آقا ہے بڑا بے وقوف جو اپنی بلا دوسروں کے سر ڈال رہا ہے۔ اس نے گھوڑا فروخت کر دیا اور وہ گھوڑا خریدار کے پاس جا کر مر گیا۔ پھر اس نے خچر کو بھی بیچ دیا اور وہ بھی خریدار کے گھر جا کر مر گیا۔ اس طرح اس نے اپنا مال بچا لیا۔ حالانکہ ایک نقصان بہت سے نقصانات کا دفیعہ ہوتا ہے۔ اگر آقا کا گھوڑا اور خچر اسی گھر میں مرتے تو ہمارے آقا کی جان کا فدیہ ہوتے۔ کیونکہ مال اگر انسان کی جان پر قربان ہو جائے تو وہ نقصان نہیں ہے۔ بلکہ نفع ہی نفع ہے۔ لیکن ہمارے آقا نے اپنی جان پر بلا ڈال کر اپنے مال کو بچایا ہے اور سخت گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ اب میں تمہیں ایک اور سچی بات بتاتا ہوں کہ کل کو یقیناً ہمارا آقا خود مر جائے گا اور اس کے غم میں جو لوگ اکٹھے ہوں گے گھر والے ان کے لیے گائے ذبح کریں گے اور طرح طرح کے لذیذ کھانے پکائیں گے۔ اس میں تمہیں بھی بہت کچھ مل جائے گا۔

اس شخص نے جب یہ سنا تو انتہائی تیزی سے دوڑتا ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا۔ خوف کی وجہ سے اس کے چہرے کی رنگت اڑی ہوئی تھی۔ کہنے لگا، اے اللہ کے پیغمبر! میری مدد فرمائیں۔ بے شک مجھ سے غلطی ہو گئی جو میں نے جانوروں کی بولیاں سیکھنے پر اصرار کیا میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔ مجھے موت کے منہ میں جانے سے بچا لیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس شخص کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا، اے بے وقوف! اب یہ بات بڑی دشوار ہے کیونکہ آئی ہوئی قضا ٹل نہیں سکتی۔ مٰیں نے تو اس قضا کو اسی دن دیکھ لیا تھا جو تجھ پر آج ظاہر ہوئی ہے۔ لہٰذا اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ تمہاری موت واقع ہونا اٹل ہے۔ چنانچہ اگلے دن اس شخص کا انتقال ہو گیا۔

(حکایاتِ رومی سے ماخذ)


Sunday, 13 January 2019

حضرت سلطان باہوؒ


برصغیر پاک و ہند میں دینِ اسلام کی ترویج و ترقی میں مسلم صوفیائے کرام ؒ کا کردار خاصا روشن اور نمایاں ہے۔ انہی صوفیائے کرام ؒ میں ایک مستند نام حضرت سلطان العارفین محمد باہوؒ کا بھی ہے۔ حضرت سلطان باہوؒ کے والدین کا تعلق قبیلۂ اعوان سے تھا۔ آپ کا خاندان سلطنت دہلی کے دربار سے منسلک تھا اور ان کے اکثر لوگ پشت در پشت ملک و ریاست کے منصب دار چلے آ رہے تھے۔ حضرت سلطان باہوؒ کے والد بازید محمد بھی منصب دار تھے اور پورے علاقے میں اپنی شجاعت کی بدولت معروف حیثیت کے حامل تھے۔ بازید محمد شورکوٹ میں قیام پذیر ہوئے ابھی کچھ ہی ماہ گزرے تھے کہ سلطان محمد کی ولادت ہوئی۔ مختلف روایات میں آپ کے سنِ ولادت مختلف درج ہیں۔ مگر صحیح روایت یہی ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت شاہ جہاں کے عہدِ حکومت میں 1039ھ میں ہوئی۔ والدین نے آپؒ کا نام "سلطان محمد باہو" تجویز کیا۔ "باہو" کا مطلب ہے جو اللہ کے ساتھ ہو یا جس کے ساتھ اللہ ہو۔

نوجوانی کے دور میں داخل ہوتے ہی مرشدِ کامل کی تلاش شروع کر دی اور اپنا سفر مشرق کی جانب سے شروع کیا۔ اس زمانے میں تو شہروں اور آبادیوں کی اس قدر بہتات نہ تھی۔ کہیں کہیں شہر اور آبادی نظر آتی تھی۔ آپ اسی طرح ویرانوں اور جنگلوں میں سفر کرتے ہوئے مرشد کو تلاش کرتے رہے۔ اسی مسافرت کے دوران آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت شاہ حبیب اللہ قادریؒ جو بلند مرتبہ ولی کامل ہیں دریائے راوی کے کنارے مقیم ہیں اور لوگوں کو ان سے فیض حاصل ہوتا ہے۔ جب آپ شاہ صاحب کے پاس پہنچے تو معلوم ہوا کہ انہوں نے ایک دیگ کے نیچے آگ جلا رکھی ہے۔ یعنی اس دیگ میں پانی ہر وقت گرم رہتا ہے۔ جو بھی طالبِ حق آتا ہے تو شاہ صاحبؒ اس کو اس دیگ میں ہاتھ ڈالنے کا حکم دیتے ہیں اور وہ اپنے ظرف کے مطابق فیض حاصل کرتا ہے۔ کچھ روزحضرت سلطان باہوؒ یہ سب کچھ ملاحظہ فرماتے رہے پھر آپ شاہ صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے آنے کا مدعا بیان کیا۔ شاہ صاحبؒ نے بذریعہ کشف معلوم کرلیا کہ یہ نووارد کیا حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود فرمایا کہ "کیا تم نے دیگ میں ہاتھ ڈالا؟"


آپ نے عرض کیا "حضرت صاحب! میں نے دیگ میں ہاتھ ڈالنے والوں کا حال دیکھا مگر میری طلب تو اس سے پوری نہیں ہوتی۔"

شاہ صاحب نے فرمایا "اچھا ٹھیک ہے۔ تم ایسا کرو ابھی کچھ دن یہاں پر قیام کرو اور تمہارے ذمہ مسجد میں پانی کا انتظام کرنا ہے۔"

آپ نے یہ ذمہ داری قبول فرمائی اورمسجد کے خدام سے پانی بھرنے کے لیے مشک مانگی۔ خدام نے اسی وقت مشک حاضر کردی۔ مسجد کے کنارے ایک کنواں تھا، اس میں سے ڈول بھر بھر کر پہلے تو مشک میں ڈالا جاتا اور اس کے بعد مسجد کے صحن میں موجود حوض جو وضو کے لیے ہوتا ہے اس کو بھرا جاتا تھا۔ اسی طرح مسجد میں موجود طہارت خانوں کی ٹینکی کو بھرا جاتا تھا۔ یہ کام خاصا دقت طلب تھا اور یقینی طور پر ایک آدمی کے بس کا بھی نہیں تھا۔ حضرت سلطان العارفینؒ نے فقط ایک ہی مشک بھری اور اس مشک کے پانی سے مسجد کے صحن میں واقع حوض اور حمام لبالب بھر گئے۔ شاہ صاحبؒ کے خدام نے جب یہ واقعہ ملاحظہ کیا تو بھاگم بھاگ شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام ماجرا کہہ سنایا۔ شاہ صاحبؒ نے ان سے کہا کہ اس نووارد کو میرے پاس حاضر کرو۔ اب حضرت حبیب اللہ شاہؒ کو بخوبی اندازہ ہوچکا تھا کہ یہ کوئی عام طالب علم نہیں بلکہ فقر کی کافی منازل طے کر چکا ہے۔ انہوں نے آپ سے فرمایا کہ "اے باہو! تم جس نعمتِ الہٰی کے حقدار ہو وہ تو ہمارے امکان سے باہر ہے۔ البتہ ہم تمہیں اس سلسلہ میں یہ ضرور بتلائیں گے کہ تم کو یہ فیض کہاں سے حاصل ہوسکتا ہے۔ تم ایسا کرو کہ میرے شیخ طریقت حضرت سید پر عبدالرحمٰن دہلوی قادریؒ کے پاس چلے جاؤ۔ ان کی خدمت گزاری کرو۔ امید ہے کہ تم گوہر مقصود حاصل کر لو گے۔"


قصہ مختصر آپؒ عازمِ دہلی ہو گئے۔ اُدھر دلی میں آپؒ کی آمد سے قبل ہی حضرت عبدالرحمٰن قادریؒ نے اپنے ایک خادم کو حکم دیا کہ اِس حلیہ کا ایک شخص تمہیں فلاں جگہ ملے گا تم بڑی عزت کے ساتھ اس کو میرے پاس لے آؤ۔ سلطان محمدؒ دہلی کے قریب پہنچے تو وہ خادم آپؒ کو ملا اس خادم نے آپؒ کو سلام عرض کیا اور شیخ ؒ کا حکم سنایا۔ آپؒ تو آئے ہی اس مقصد کے لیے تھے۔ آپؒ نے اس کو ایک سعادت خیال کیا اور اس خادم کے ساتھ خاموشی کے ساتھ چل دیئے۔

جب سلطان العارفینؒ، شیخ ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپؒ کو اپنی خانقاہ میں بڑی گرمجوشی سے اپنے گلے لگایا۔ آپؒ کو خلوت میں لے گئے اور فیوض و برکات سے نوازا۔ اسی کے ساتھ ہی حضرت شیخ عبدالرحمٰن قادریؒ نے آپؒ کو چند ہدایات دیں اور رخصت کی اجازت مرحمت فرما دی۔ حضرت سلطان العارفین ؒ نے مرشد سے بعد از بیعت اجازت طلب فرمائی۔ اجازت حاصل کرکے آپؒ نے دہلی کی سیر شروع کی۔ ساتھ ہی ساتھ آپؒ نے بطورِ آزمائش  محض دیکھ کر لوگوں کو پریشانیاں بتلانا شروع کیں اور ان کا تدارک بھی فرمانا شروع کیا۔ بہت ہی جلد آپ کی شہرت پورے دہلی شہر میں پھیل گئی اور پریشان حال لوگوں نے جوق در جوق آپؒ سے رجوع کیا۔ وہ لوگ جن کا کوئی بھی پرسانِ حال نہ تھا آپؒ ان کے لیے ایک روشنی کی کرن بن گئے۔ لوگ آپؒ سے فیض حاصل کرتے اور روانہ ہوجاتے۔ ایک روز نمازِجمعہ کا وقت قریب تھا اس لیے آپؒ نے جامع مسجد دہلی کا رُخ کیا۔ مسجد میں داخل ہو کر آپؒ ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھ گئے اور عبادت میں مشغول ہو گئے۔ مسجد میں اس وقت اونگ زیب عالمگیر بھی مع اپنے مصاحبین موجود تھا۔ مسجد میں نمازیوں کی کثرت تھی۔ آپؒ نے جو سر اٹھا کر دیکھا تو ساری مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی نظر آئی۔ آپؒ نے ان کے قلوب کی طرف جو توجہ فرمائی تو پوری مسجد میں حاضرین پر وجد اور وارفتگی طاری ہونا شروع ہو گئی اور کچھ ہی دیر میں "حق ہُو" کی صدائیں گونجنے لگیں۔

جب سکوت ہوا تو اونگ زیب عالمگیر نے اپنے کوتوال سے پوچھا کہ "یہ کیا ماجرا تھا کہ سب پر ہی وجدانی کیفیت طاری ہوگئی۔۔۔۔۔؟" کوتوال نے عرض کیا "یا ظلِ الہٰی میرا خیال ہے کہ اس وقت کوئی ولی کامل اس مسجد میں موجود ہے"۔ اس پر بادشاہ نے اس کو حکم دیا کہ "اس ولی کو تلاش کرو"۔۔۔۔۔جب لوگوں نے آپؒ کی تصدیق کردی۔ کیونکہ عام لوگ تو آپؒ سے بخوبی واقف ہو چکے تھے اور تمام حاضرین میں صرف آپؒ ہی کامل سکون کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ کوتوال نے آپؒ سے عرض کیا کہ "شہنشاہ آپ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہے"۔۔۔۔۔ آپؒ نے اجازت دی تو بادشاہ نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ "یا حضرت! نظرِ کرم ہو"۔

آپؒ نے فرمایا کہ "اے شہنشاہِ ہند! میں ایک شرط پر توجہ دوں گا کہ آپ کی طرف سے آئندہ مجھے تلاش نہ کیا جائے"۔ اس نے وعدہ کر لیا۔ اس کے بعد آپؒ دوبارہ اپنے آبائی وطن شور کوٹ تشریف لے آئے اور متلاشیانِ حق کو فیوض و برکات سے نوازنے لگے۔

حضرت سلطان العارفین ؒ زیادہ تر مستغرق رہتے تھے۔ ذکر ہمیشہ آپ کے قلب میں جاری و ساری رہتا تھا۔ آپؒ بہت ہی کم  کسی ایک جگہ پر قیام پذیر رہے۔ آپ کے سفر کے تفصیلی حالات بدقسمتی سے ناپید ہو چکے ہیں۔ آپ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ میں 30 برس تک مرشد کامل کی طلب میں رہا اور تمام عمر طالب صادق کی طلب میں بسر ہوئی۔ آپؒ نے اپنی باطنی دولت اور روحانی نعمت کو کتابوں کی صورت میں قلمبند فرمایا اور اس طرح اپنے باطنی فیض کو طالبانِ حق اور صادقوں کے لیے عام فرما دیا کہ تا قیامت جو بھی چاہے ان سے حسبِ لیاقت فیض حاصل کر سکے۔

حضرت سلطان باہو ؒ شہرت کو ناپسند فرماتے تھے۔ اگر کبھی آپؒ سے کسی کرامت کا ظہور ہوتا تو وہ مقام ہی چھوڑ دیا کرتے اور کسی دوسری جگہ کو اپنا مسکن بنا لیتے۔ سلطان العارفین ؒ لوگوں کو عبادت کا درس دیا کرتے۔ اکثر یہ فرمایا کرتے کہ "تم لوگ اپنی اصلاح کرو اور کرامات کے چکر میں مت پڑو۔ کیونکہ اس طرح تم قصے کہانیوں میں مشغول ہو جاؤ گے"۔ ایک مرتبہ آپؒ نے ارشاد فرمایا کہ "اگر تو ہوا میں اڑے تو ایک مکھی کی طرح ہے اور اگر پانی پر چلے تو ادنیٰ تنکے کے برابر ہے اور اگر لوگوں کے دلوں کو اپنی کرامات سے اپنی طرف راغب کرے تو اہلِ ہوس کی نشانی ہے"۔ یعنی جو کوئی شخص ہوا میں اڑ کر دکھاتا ہو تو تمہیں اس کے کامل ولی اللہ ہونے میں یقین نہیں کر لینا چاہیے کیونکہ ایسا تو ایک مکھی بھی کر سکتی ہے اور اس طرح اگر کوئی شخص اپنی ولایت کے ثبوت میں تمہیں پانی پر چل کر دکھائے تو تمہیں اس کو ولی کامل نہیں مان لینا چاہیے کیونکہ ایسا تو ایک ادنیٰ تنکا بھی کرسکتا ہے اور اگر کوئی شخص لوگوں کے دلوں کو اپنی کرامات کے ذریعہ متوجہ کر لے تو بھی اس ولی اللہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کیونکہ یہ محض ہوس ہے۔

ایک روز بسلسلہ سیروسیاحت آپؒ کا گزر پنجاب کے ایک مقام دامان کوہ غربی جبل اسود کی طرف ہوا جہاں آپؒ نے ایک چھوٹے سے بچے کو چراگاہ میں گائے کے بچھڑے چراتے ہوئے پایا۔ آپؒ نے اس بچہ کی طرف فیض سے بھرپور نظر اٹھا کر توجہ فرمائی اور ایک ہی نظر میں اسے روحانیت کے کئی مدارج سے گزار دیا۔ اس بچے کا نام نورنگ عرف کتھران تھا۔ پھر سلطان العارفین ؒ وہاں سے کوہ شمالی سون سکیسر وغیرہ کے جنگلوں کی سیروسیاحت کے لیے روانہ ہو گئے۔ فیضیابی کے بعد اسی وقت سے نورنگ کتھران بھی آپؒ کی خدمت میں حاضر رہنے لگے۔

"مناقب سلطانی" کی روایت کے مطابق حضرت سلطان باہو ؒ، ذاتِ باری پر توکل فرماتے تھے۔ مغل شہنشاہ شاہجہاں کی طرف سے آپؒ کے والد محترم سلطان بایزید ؒ کو ایک وسیع جاگیر عطا ہوئی تھی یہ جاگیر پچاس ہزار بیگھے زمین اور اینٹوں کے ایک قلعے پر مشتمل تھی جس میں کئی آباد کنویں جاری تھے، ایک تو وسیع جاگیر کی موجودگی، دوسرے بچپن سے غلبۂ عشق الہی۔۔۔۔۔ یہی وہ عوامل تھے جن کے باعث حضرت سلطان باہو ؒ فکر دنیا سے آزاد رہے پھر بھی آپؒ کی حیاتِ مبارکہ میں دو مواقع ایسے نظر آتے ہیں جب آپؒ نے کاروبار ہستی میں حصہ لینے کی کوشش کی تھی۔ حضرت سلطان باہو ؒ نے دو مرتبہ کھیتی باڑی کی غرض سے بیلوں کی جوڑی خریدی، پھر خود ہی زمین جوتی مگر جب فصل پکنے کے قریب آئی تو آپ بیلوں کو چھوڑ کر سیروسیاحت کے لیے کسی طرف نکل گئے۔

 یہ اسی زمانے کا واقعہ ہے۔ جب حضرت سلطان باہوؒ کھیتی باڑی میں مصروف تھے۔ پنجاب کے کسی دور دراز علاقے میں ایک شریف شخص رہا کرتا تھا جس کی کئی بیٹیاں تھیں جو شادی کے قابل ہو گئی تھیں۔ وہ شخص اپنے گھرانے کا بھرم رکھنے کے لیے اُجلا لباس پہنتا تھا جسے دیکھ کر اہلِ محلہ سمجھتے تھے کہ وہ مالی طور پر آسودہ حال ہے۔ اس کی اسی ظاہری حالت سے متاثر ہو کر اچھے خاندان کے لوگوں نے اس کی بیٹیوں کے لیے رشتے بھیجے تھے مگر وہ اندرونی طور پر اس قابل نہیں تھا کہ بیٹیوں کی شادی کا انتظام کر سکے۔ آخر ایک دن وہ اپنے مسائل سے پریشان ہو کر کسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا۔

"شیخ! میرا تعلق سادات کے خاندان سے ہے۔ میں نے بہت اچھا وقت گزارا ہے مگر اب سفید پوشی کے سوا کچھ بھی باقی نہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں ایک مالدار شخص ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی سرمایہ جمع نہیں کر سکا۔ میں اپنی زندگی تو گزار چکا مگر بیٹیوں کا بوجھ برداشت نہیں ہوتا۔ قرض خواہ ہر وقت دروازے پر کھڑے رہتے ہیں۔ اب آپ ہی میرے حق میں دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان مشکلات سے نجات دیدے"۔

بزرگ کچھ دیر تک سید زادے کی حالت زار پر غور کرتے رہے بھر معزرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگے۔ "تمہارے مسئلے کا حل میرے پاس نہیں ہے۔"

"میں تو دعا کے لیے درخواست کر رہا ہوں"۔ سید زادے نے اداس لہجے میں عرض کیا۔

"اب دعا ہی تمہاری دوا ہے۔۔۔۔۔اور میری دعا میں اتنی تاثیر نہیں ہے کہ وہ تمہارے سر اور گھر سے گردشِ وقت کو ٹال دے"۔ بزرگ نے صاف صاف کہہ دیا۔

"میں نے تو لوگوں سے آپ کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے"۔ بزرگ کا انکار سن کر سید صاحب مزید دل سکستہ نظر آنے لگے۔

"وہ لوگوں کا حسنِِ ظن ہے مگر میں تمہیں حقیقت بتا رہا ہوں"۔ بزرگ نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ "مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ زمین اللہ کے مستجاب الدعوات بندوں سے خالی ہے، میں تمہیں ایک ایسے شخص کا پتہ دیتا ہوں جس کی زبان میں بہت تاثیر ہے۔ وہ مردِ حق دریاتے چناب کے کنارے قصبہ شورکوٹ میں رہتا ہے۔ اس کے آستانے پر حاضری دو۔ اللہ تمہاری مشکل آسان کرے گا"۔

سید صاحب کے چہرے سے کچھ دیر کے لیے رنج و الم کا غبار دھل گیا اور وہ تیز آندھیوں میں امید کا چراغ جلائے ہوئے شور کوٹ پہنچے۔

اس وقت حضرت سلطان باہوؒ سادہ لباس میں ملبوس اپنی زمین پر ہل چلا رہے تھے اگر کوئی اجنبی شخص، حضرت شیخؒ کو اس حالت میں دیکھتا تو یہی رائے قائم کرتا کہ یہ محض ایک کسان ہیں۔ سید صاحب نے بھی حضرت سلطان باہوؒ کے بارے میں یہی سوچا اور دل ہی دل میں افسوس کرنے لگے۔

"میرا سفر رائیگاں گیا، جو شخص خود اتنا پریشان حال ہو، وہ کسی دوسرے کی کیا مدد کر سکتا ہے"۔ یہی خیال کرکے سید صاحب واپس جانے کے لیے مڑے۔

ابھی سید صاحب ایک ہی قدم آگے بڑھے ہوں گے کہ حضرت سلطان باہوؒ کی صدائے دل نواز سنائی دی "سید صاحب۔۔۔۔۔! اتنا طویل سفر اختیار کیا اور موسم کی سختیاں برداشت کیں پھر بھی ہم سے ملاقات کیے بغیر واپس جا رہے ہو۔۔۔۔۔؟

اپنا نام سن کر سید صاحب حیرت زدہ رہ گئے فوراً گھوڑے کی پشت سے اترے، بڑی عقیدت کے ساتھ حضرت سلطان باہوؒ کی خدمت میں سلام پیش کیا اور سفر کی وجہ بیان کرنے لگے۔

حضرت سلطان باہوؒ نے بہت غور سے سید صاحب کی درخواست سنی پھر نہایت شیریں لہجے میں فرمانے "سید! تم میرا کام کر دو، میں تمہارا کام کیے دیتا ہوں اس لیے کہ کام کا بدلہ کام ہے"۔

سید صاحب نے بڑی حیرت سے حضرت سلطان باہوؒ کی طرف دیکھا "شیخ! ایک سوالی آپ کے کیا کام آ سکتا ہے؟"

"میں ایک ضروری کام سے فارغ ہو کر ابھی آتا ہوں جب تک تم میرا ہل چلاؤ، بس یہی کام ہے"۔ اتنا کہہ کر حضرت سلطان باہوؒ تشریف لے گئے۔

اس دوران سید صاحب ہل چلاتے رہے۔ حضرت سلطان باہوؒ کو دیکھ کر انہیں یقین سا ہو گیا تھا کہ وہ یہاں سے خالی ہاتھ نہیں جائیں گے۔

تھوڑی دیر بعد حضرت سلطان باہوؒ واپس آئے اور اپنے سامنے پڑا ہوا مٹی کا ایک ڈھیلا اٹھا کر زمین پر مار دیا۔ سید صاحب نے حضرت سلطان باہوؒ کے اس عمل کو بڑی حیرت سے دیکھا مگر دوسرے ہی لمحے ان کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں ارد گرد کے سارے ڈھیلے سونا بن گئے تھے۔

"سید! اپنی ضرورت کے مطابق سونا اٹھا لو"۔ حضرت سلطان باہو" نے بے نیازانہ انداز میں فرمایا۔

سید صاحب نے سونا اٹھا لیا۔ پھر حضرت سلطان باہوؒ کے دستِ مبارک کو بوسہ دیتے ہوئے بڑی وارفتگی کے عالم میں یہ شعر پڑھا   ؎

نظر جنہاں دی کیمیا، سونا کردے وٹ
قوم اتے موقوف نہیں، کیا سید کیا جٹ

"جن لوگوں کی نگاہ کیمیا اثر ہے، وہ ایک ہی نظر سے مٹی کو سونا بنا دیتے ہیں، یہ ذاتِ الہی کا فیض ہے جو کسی قوم پر موقوف نہیں، خواہ وہ سید ہو یا جٹ"،

63 سال تک کارِ مسیحائی انجام دینے کے بعد حضرت سلطان باہوؒ 1629ء میں بمطابق جمادی الثانی 1102ھ میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپؒ کو دریائے چناب کے کنارے موضع "قہرگان" کے قلعے میں سپرد خاک کیا گیا۔

1706ء میں دریائے چناب شدید طغیانی کی لپیٹ میں آگیا جس کے باعث آپؒ کے مزارِ مبارک کے غرق ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوا۔ نتیجتاً حضرت سلطان باہوؒ کے جسدِ مبارک کو بستی سمندری کے قریب منتقل کر دیا گیا۔ اس قدر طویل مدت گزر جانے کے بعد بھی آپؒ کا کفن تک میلا نہیں ہوا تھا۔

پھر 157 سال بعد 1863ء دریائے چناب میں دوبارہ خوفناک سیلاب آیا یہاں تک کہ پانی کی سرکش لہریں مزار چھونے لگی تھیں۔ ایک بار پھر آپ کے جسم مبارک کو منتقل کر کے گڑھ مہاراجہ (ضلع جھنگ) میں آسودۂ خاک کیا گیا۔ اس وقت بھی آپؒ کا کفن صحیح سالم تھا۔